021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگرکوئی وارث اپنے حصے کے ملنے کے باوجوددوسری جگہ کابھی مطالبہ کرے اورعدالت میں درخواست دینے کے بعد مرجائے،تواس کے اصل حصہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟
57807میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! میری والدہ رابعہ بیگم کے والد حاجی عبدالغفار مرحوم نے تین نکاح کئے تھے،پہلے نکاح سے میری والدہ رابعہ بیگم، دوسرے نکاح سے دوبیٹیاں ایک بیٹا،اورتیسرے نکاح سے دوبیٹے تین بیٹیاں تھیں،حاجی عبدالغفار نے مرنے سے پہلے اپنی آدھی جائیداد رابعہ بیگم کوہبہ کردی،تحریری طورپر،لیکن زبانی وصیت کی کہ جب باقی بچے بڑے ہوجائیں توان میں یہ آدھی جوہبہ کی ہےتقسیم کردینا،رابعہ بیگم نے وصیت کے مطابق ہبہ کوتقسیم کردیا،لیکن ان کے ایک بھائی عبدالستار نے وہ زمین نہیں لی جواس کے حصے میں آرہی تھی،اس نے تقاضاکیاکہ مجھے اس پلاٹ کے ساتھ ایک اورپلاٹ چاہئے،اس پراس نے عدالت میں کیس درج کیا،لیکن وہ مرگیا،اورزمین رابعہ بیگم کے نام پرہی رہی،اوراس کاکرایہ بھی رابعہ بیگم لیتی رہی،اب رابعہ بیگم کے وفات کے بعد یہ زمین رابعہ بیگم کے بچوں میں تقسیم ہوگی یاعبدالستارکے بچوں میں ؟اس کے بارے میں فتوی دیں۔ تنقیح:عبدالستار کوجوپلاٹ دیاگیاتھا،عبدالستار کااس کے ساتھ ساتھ ایک اورمکان کامطالبہ تھاجوکہ رابعہ بیگم نے اپنے ذاتی رقم سے بنایاتھا،عبدالستارکے فوت ہونے کے بعد وہ کیس ختم ہوگیااس کی اولادنے مزیداس کیس کوجاری رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نیز رابعہ بیگم کے ایک اوربھائی عبدالوہاب کوایک پلازہ دیاتھا،لیکن وہ نشہ کرتاتھا،اس لئے تحریری طورپر یعنی کاغذی طورپراس کے نام نہیں کیا،عبدالوہاب اس پلازہ کاکرایہ لیتاتھا،وہ مرگیا تورابعہ بیگم نے وہ پلازہ عبدالوہاب کی حقیقی بہن خالدہ کودیاکہ تمام بہن بھائیوں میں تقسیم کردینا،اورمیراحصہ میرے بچوں کودے دینا،رابعہ کے انتقال کے بعدخالدہ نے پورے پلازہ کواپنے نام پرکرناچاہاتورابعہ بیگم کے بچوں نے عدالت میں کیس درج کیا،اب کیس سپریم کورٹ میں ہیں،اوررابعہ کے بچوں کے حق میں فیصلہ ہوگا،کیونکہ وہ رابعہ کے نام ہے،لیکن اس پلازہ کی شرعی تقسیم کیسے ہوگی؟فتوی دیں۔ تنقیح:مذکورہ پلازہ اگرچہ رابعہ بیگم کے نام تھا،لیکن یہ حاجی عبدالغفارکی وراثت سے عبدالوہاب کوملاتھا،جس کاکرایہ عبدالوہاب ہی وصول کرتارہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ مرحوم کی طرف سے وراثت کے حصے کے ساتھ ساتھ الگ جگہ کابھی مطالبہ تھا،جس کا شرعا مطالبہ درست نہ تھا(کیونکہ وہ جگہ رابعہ کے ذاتی پیسوں سے تعمیر کی گئی تھی)،اور جب عدالت میں کیس کیااورفیصلہ کے بغیر فوت ہوگیا،تومرحوم کادعوی ختم ہوگیا،اب مرحوم کی وراثت کاسابقہ حصہ(جس کے بارے میں حاجی عبدالغفار نے رابعہ بیگم کووصیت کی تھی کہ وہ باقی ورثہ میں تقسیم کردے) برقراررہےگا،اوروراثت میں سے جتناحصہ اس کاتھاوہ عبدالستارکاہی ہوگا،عبدالستار کے مرنے کے بعدیہ زمین اس کے بچوں میں تقسیم ہوگی نہ کہ رابعہ بیگم کے بچوں میں۔ جوپلازہ عبدالوہاب کودیاگیاتھا،اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ چونکہ عبدالوہاب کی کوئی اولادنہیں اس لئے یہ پلازہ عبدالوہاب کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگا،پھرجتناحصہ رابعہ بیگم کابنتاہے،اتنے حصے میں رابعہ بیگم کی اولاد مطالبہ کرسکتی ہے،باقی میں نہیں۔ شرعاصرف رابعہ بیگم کی اولاد ہی اس کے مستحق نہیں،بلکہ عبدالوہاب کے اوربہن بھائی میں اس میں شریک ہوں گے،اس لئے رابعہ بیگم کی اولاد کاعدالت میں مکمل پلازہ کا کیس کرنادرست نہیں،وراثت میں جتناحصہ آتاہے،اس کے بقدرعدالت میں کیس کیاجاسکتاہے۔ رہی بات کہ یہ پلازہ رابعہ بیگم کے نام ہے توجب رابعہ بیگم نے قبضہ بھی عبدالوہاب کودیدیاجس کی ظاہری علامت یہ ہے کہ کرایہ وہی وصول کرتاتھاتووہ پلازہ اسی کاہوگیا،اب رابعہ کے نام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
حوالہ جات
واللہ سبحانہ وتعالی اٴعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب