السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مفتی صاحب مجھے ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ میں نے اپنا ایک مکان کرایہ دار کو کرایہ پر دیا ہے اور اس سے میں نے ایڈوانس رقم کے ساتھ اضافی رقم لی ہے اور اس کی وجہ سے میں نے دو سال کی مدت تک ماہانہ کرایہ میں کمی کردی ہے اور اس ایڈوانس کی وجہ سے دو سال تک کرایہ میں اضافہ نہیں کروں گا تو کیا شرعی حیثیت سے میرا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں معروف ایڈوانس کے ساتھ اضافی رقم لےکر کرایہ میں کمی کرنا اور دو سال تک کرایہ میں اضافہ نہ کرنا جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ آپ نے کرایہ دار سے جو رقم لی ہے وہ قرض ہے اور قرض کے عوض کوئی بھی مشروط منفعت حاصل کرنا سود اور ربا ہے۔
حوالہ جات
"«ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن قرض جر منفعة» وسماه ربا"
المبسوط للسرخسي14/35 ط:دار المعرفۃ بیروت) (
"وفي الاشباه كل قرض جر نفعا حرام، فكره للمرتهن سكنى الموهونة بإذن الراهن."
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 430)
"قال الكرخي في مختصره في كتاب الصرف وكل قرض جر منفعة لا يجوز مثل أن يقرض دراهم غلة على أن يعطيه صحاحا أو يقرض قرضا على أن يبيع به بيعا؛ لأنه روي أن كل قرض جر منفعة فهو ربا، وتأويل هذا عندنا أن تكون المنفعة موجبة بعقد القرض مشروطة فيه"
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي6/29 ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
"(و) كره (إقراض) أي إعطاء (بقال) كخباز وغيره (دراهم) أو برا لخوف هلكه لو بقي بيده. يشترط (ليأخذ) متفرقا (منه) بذلك (ما شاء) ولو لم يشترط حالة العقد لكن يعلم أنه يدفع لذلك شرنبلالية، لأنه قرض جر نفعا وهو بقاء ماله فلو أودعه لم يكره لأنه لو هلك لا يضمن وكذا لو شرط ذلك قبل الإقراض ثم أقرضه يكره اتفاقا قهستاني وشرنبلالية."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/394 ط: دار الفکر بیروت)