میری بیوی اپنےو الدین کے گھرگئی ہوئی تھی ،میرے والدین نے کہاکہ چنددن مزیدرک جائے،میں نے غصہ میں آکرکہا:اگرآج شام سے پہلےپہلے نہیں آئی توطلاق ہے،پھرایک منٹ بعدکہاکہ اگرآج شام سے پہلے پہلے نہیں آئی توطلاق ہے،پھرایک منٹ بعد لگاتارتین مرتبہ یہی جملہ دہرایا،یہ جملےکہتے وقت میری نیت صرف یہ تھی کہ بس جلدی لے کرآجائیں اورباربارکہنے کامقصدصرف ڈرانادھمکاناتھا،جبکہ حقیقت میں طلاق دینانہیں چاہتاتھااورمیری بیوی بھی آنے کے لئے تیارتھی،پھرمیرے والدین میری بیوی کورات تقریبانوبجے لے کرآئے،اب ہم ایک گھرمیں رہتے ہیں۔
برائے مہربانی اس مسئلے کوحل فرمائیں ،میں بہت پریشان ہوں ،یہ واقعہ 17-2-24 کاہے۔
نوٹ: یہ باتیں میں نے ظہرسےپہلے کی تھیں اورظہرکے بعدسالے کوفون پرکہااگرآج نہیں آئی توطلاق ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شام کااطلاق غروب آفتاب پرہوتاہے،لہذاصورت مسؤلہ میں عورت شام سے پہلے نہیں آئی ہے توشرط کے پائے جانے کی وجہ سے تین طلاقیں ہوچکی ہیں ،اب اس عورت سے شرعی حلالہ کئے بغیرنکاح نہیں ہوسکتا۔واضح رہے کہ طلاق کے صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی اورمسئولہ صورت میں سائل نےبھی صریح الفاظ استعمال کئے ہیں،اس لئے یہ طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں، اگرچہ سائل کی نیت صرف ڈرانے دھمکانےکی کیوں نہ ہو۔
شرعی حلالہ کامطلب یہ ہے کہ متاثرہ خاتون عدت گذارنے کے بعدکسی دوسرے مردسے شرعی طریقہ (دومردیاایک مرداوردوعورتوں کی موجودگی) کے مطابق نکاح کرے،اب اگریہ شوہرصحبت کرکے طلاق دیتاہے تواس خاتون کاعدت مکمل کرنے کے بعدپہلے شوہرسے نکاح کرنادرست ہوگاورنہ نہیں۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 9 / ص 441)
"وقال هشام عن محمد: المساء مساآن: أحدهما إذا زالت الشمس ألا ترى أنك تقول إذازالت كيف أمسيت. والمساء الآخر إذا غربت الشمسز"
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج 8 / ص 109):
"في «القدوري» المساء مساءان أحدهما إذا زالت الشمس والآخر إذا غربت الشمس."
الفتاوى الهندية (ج 9 / ص 213):
"إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق."