03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مبیع کو واپس لینے کا حکم
57197خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا کپڑے کا کام ہے ، ہم ہر پندرہ بیس دن بعد خواتین کپڑے کا کوئی نہ کوئی ڈیزائن مارکیٹ میں لاتے رہتے ہیں ۔ہم سے دوکاندار یہ کپڑا خرید کر لے جاتے ہیں ۔شروع میں اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے (مثلاً 5000 روپے یعنی دوکاندار کو ہم وہ کپڑا اس قیمت پر فروخت کرتے ہیں ۔ مگر جب کوئی اور نیا ڈیزائن آجاتا ہے اور سابقہ ڈیزائن کچھ پرانا ہوجاتا ہےتو اس پرانے ڈیزائن والے کپڑے کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں تاکہ اس ڈیزائن کا اسٹاک ختم ہو جائے اور ہماری رقم باؤنڈ نہ ہو ۔ اب جس دوکاندار نے اس ڈیزائن کا کپڑا شروع میں خریدا تھا اگر وہ اس کے پاس سے نہ نکل سکا تو ایسے موقع پر ہمیں واپس کرنے کا تقاضا کرتا ہے جب ہم اس ڈیزائن کا اسٹاک ختم کرچکے ہوتے ہیں یا کم از کم سابقہ قیمت کے مقابلے میں آدھی قیمت پر بیچ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی بتانا چاہتا ہوں کہ شروع میں ہمارے اور خریدار دوکاندار کے درمیان خریداری کا معاملہ بالکل مکمل ہوجاتا ہے ، البتہ کچھ رقم نقد اور بقیہ کی ادائیگی آہستہ آہستہ ہوتی رہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں دوکاندار سے وہ کپڑا ضرور واپس لینا چاہیے؟ جبکہ ہمیں اس موقع پر واپس لینے میں نقصان ہے۔ اس لیے کہ اگر سابقہ قیمت پر واپس لیں تو مارکیٹ میں اس کپڑے کی قیمت اصل قیمت کی آدھی ہے، اگر اس آدھی قیمت پر لیں تو بھی نقصان ، اس لیے کہ اب تو اس کپڑے کی مارکیٹ میں طلب ہی نہیں رہی۔ اس صورت میں ہماری رقم اس میں باؤنڈ ہو جائے گی ۔لہٰذا ان دونوں صورتوں میں نقصان کے باوجود وہ کپڑا ہمارے لیے لینا لازم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت کے مطابق آپ کے لیے اِس کپڑے کا واپس لینا لازم نہیں ہے ۔کیوں کہ خرید و فروخت کے عمومی شرعی اصولوں کی رو سے ایک مرتبہ جب خرید و فروخت کا عقد مکمل ہوجائے تو عام حالات میں (جس میں مذکورہ صورت بھی داخل ہے) جانبین کی رضامندی کے بغیر اُس عقد کو ختم کرنا یا عقد جدید کے ذریعہ مبیع اور ثمن ایک دوسرے کو واپس لوٹانا لازم نہیں ہوتا۔البتہ اگر آپ کے لیے ایسی کوئی صورت ممکن ہو جس میں آپ کو واپس لینے میں کوئی نقصان نہ ہو یا اتنا معمولی نقصان ہو کہ جس کا ازالہ کسی اور طرح سے ممکن ہوتو شریعت کی طرف سے ترغیب یہی ہے کہ واپس لے لینا چاہیے، کیوں کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ " جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو بیچی ہوئی چیز واپس لے لے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کی لغزشوں سے در گزر فرمائیں گے"۔
حوالہ جات
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 184) (قوله فإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع)… ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية)… البناية شرح الهداية (8/ 11) (وإذا حصل الإيجاب والقبول) ش: يعني عن الأصل مضافا إلى المحل مع شرط النفاذ وهو الملك أو الولاية م: (لزم البيع ولا خيار لواحد منهما) ش: أي لأحد المتعاقدين، وبه قال مالك.وفي " شرح الطحاوي " هذا في البيع الصحيح م: (إلا من عيب أو عدم رؤية)… إرواء الغليل لمحمد الألباني (5/ 193) 1334 - (حديث أبي هريرة مرفوعا : (من أقال مسلما ، أقال الله عثرته يوم القيامة " . رواه ابن ماجه وابو داود ، وليس فيه ذكر يوم القيامة) ص 325 . صحیح. سنن أبي داود للسجستاني (3/ 290) 3462 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ ».
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب