03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مفید الوارثین کے "باب ذوی الارحام،الصنف الثالث”” کے ایک مقام سے متعلق رائے
61036 میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاجِ گرامی بعافیت ہوں گے۔ عرض یہ ہے کہ ہمارے یہاں دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی میں مفید الوارثین (مؤلفہ حضرت مولانا سید میاں اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک مسئلہ کے متعلق استفتاء آیا تھا، جس میں ذوی الارحام صنفِ ثالث کی ایک حل شدہ مثال پر اشکال کیا گیا تھا۔ سرِ دست اس کا جواب لکھ دیا گیا ہے۔ تاہم چونکہ غیر معروف مقام کے متعلق اشکال تھا، نیز جواب کے درست ہونے کی صورت میں کتاب کے مذکورہ مقام کی تصحیح کی جائے گی، اس لئے مشورہ اور تصدیق کی غرض سے استفتاء اور جواب کی کاپی ارسالِ خدمت ہے، امید ہے جنابِ والا اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اسے ملاحظہ فرمائیں گے، اور اپنی رائے عالی سے جس قدر ممکن ہو جلد مطلع فرمائیں گے۔ والسلام

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "مفید الوارثین" کے "باب ذوی الارحام، الصنف الثالث" کے مذکورہ مسئلہ سے متعلق منسلکہ استفتاء اور دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی زادها الله تعالی شرفاً سے اس کے لکھے گئے جواب کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ ہمارے خیال میں: سائل کے دونوں اشکالات درست ہیں۔ دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی کی طرف سے پہلے اشکال کا جو جواب دیا گیا ہے وہ درست اور کتبِ میراث وفقہ میں ذوی الارحام کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہے۔ لیکن دوسرے اشکال کا جو جواب دیا گیا ہے وہ اس اشکال کو ختم کرنے کے لیے ناکافی ہے، اشکال اب بھی باقی ہے۔ جواب کی عبارت غیر جامع اور مبہم معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ: • دوسرے اشکال کے جواب میں "مفید الوارثین" کی ایک تقسیم کی وضاحت تو کی گئی ہے، لیکن دوسری تقسیم (جوکہ کل مال کی تقسیم کے ضمن میں آئی ہے) کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، اس لیے اس سے سائل کا اشکال ختم نہیں ہوا؛ کیونکہ اشکال اسی وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ "مفید الوارثین" کی ان دونوں تقسیمات میں اختلاف پایا جارہا تھا۔ • جس تقسیم کی وضاحت کی گئی ہے اس میں جو یہ بات لکھی گئی ہے کہ : " اور اسی بناء پر حقیقی بہن کے لئے کل ترکہ کے تین حصے اور اخیافی بھائی کے لئے ایک حصہ فرض کیا گیا" اگر یہ بات مفید الوارثین کے حوالے سے لکھی گئی ہے (جیساکہ ظاہر یہی ہے) تو اس میں "تین" کا لفظ درست نہیں، کیونکہ "مفید الوارثین" میں بہن کو کہیں پر "تین" حصے نہیں دئیے گئے، بلکہ ایک جگہ (شروع میں مسئلہ بناتے وقت) اس کو "پانچ" حصے اور دوسری جگہ (کل مال تقسیم کرتے وقت) "دو" حصے (30 روپے جوکہ کل ترکہ تھا، اس میں سے 20 روپیہ)دئیے گئے ہیں۔ اور اگر یہ بات سائل کی نسبت سے لکھی گئی ہے تو سائل نے دوسرے اشکال میں بہن کو "تین" حصے دینے کی کوئی تجویز نہیں دی ہے۔ البتہ پہلے اشکال میں سائل نے حقیقی بہن کو "تین" حصے اور اخیافی بھائی کو ایک حصہ دینے کی تجویز دی ہے لیکن اس کا ازالہ اشکالِ اول کے جواب میں ہوگیا ہے۔ • نیز دوسرے اشکال کے جواب کی عبارت: "اس اعتبار سے بہن کی اولاد کو 83.33% اور اخیافی بھائی کی اولاد کو 16.66% ملا"۔ اس تفریع کا ماقبل سے ربط سمجھ میں نہیں آیا۔ واللہ اعلم ہمارے خیال میں یہاں پر مفید الوارثین میں مندرجہ ذیل تسامحات ہوئے ہیں:  شروع میں مسئلہ بناتے وقت فروع کے عدد کا اعتبار نہیں کیا گیا۔  جب فروع کے عدد کا اعتبار نہیں کیا گیا (جوکہ فی نفسہ درست نہیں تھا) تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ حقیقی بہن کو "نصف" دیا جاتا جیساکہ اخیافی بھائی کو "سدس" دیا ہے، اور پھر "رد" کا قاعدہ جاری ہوتا، لیکن اس کو نصف دینے کے بجائے عصبہ سمجھ کر "جمیع مابقی" یعنی پانچ حصے دئیے گئے۔ حالانکہ بہن اکیلی "جمیع مابقی" کی حقدار کسی صورت نہیں بنتی۔  تیسرا تسامح ترکہ تقسیم کرتے وقت ہوا، اور وہ یہ کہ شروع میں مسئلہ تو اسداساً بنایا تھا (جوکہ فی نفسہ درست نہیں تھا) لیکن ترکہ کی تقسیم اثلاثاً کی، تو صاحبِ کتاب نے شروع میں مسئلہ جس طرح بنایا تھا ترکہ کو اس طرح تقسیم نہیں کیا، یوں یہ تقسیم پہلی تقسیم سے مختلف ہوگئی۔ • عبارت کی تصحیح کی صورت یہ ہے کہ پہلی تقسیم (جوکہ اسداساً کی ہے) کو دوسری تقسیم (جوکہ اثلاثاً کی ہے) کے مطابق بنا جائے۔ دوسری تقسیم جو اثلاثاً کی گئی ہے وہ قاعدہ کے مطابق ہے۔
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب