021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نیٹ کیفے کی کمائی کا حکم
60116اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مسنون سلام کے بعد مسئلہ یہ ہے کہ میرا ایک "نیٹ کیفے" ہے اور اس پر مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کچھ لوگ انٹرنیٹ کو غلط استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ صحیح استعمال کرتے ہیں اور یہ میرے معاش کا ذریعہ ہے اور اس پر میں نے “Gaming Zone” کا سسٹم بھی لگارکھا ہے جس پر بچے Game کھیلتے ہیں اور اس Game پر جوابازی لگانا ممکن نہیں ہےکیونکہ یہ صرف ایک وقت میں ایک ہی انسان کھیل سکتا ہے۔ دو لوگ ایک وقت میں نہیں کھیل سکتے، یعنی یہ Snooker یا شطرنج کی طرح نہیں ہے۔ میرے بعض دوست احباب مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہاری کمائی حرام ہے۔ اس لیے کہ لوگ یہاں آکر فحش فلمیں دیکھتے ہیں اور تم اس کا سبب ہو۔ تو کیا میری کمائی حرام ہے؟ برائے مہربانی اس مسئلہ کی مکمل وضاحت فرمائیے نیز کیا میری کمائی حرام ہے یا حلال ہے؟ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام حضرات درج ذیل مسائل کے بارے میں: o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں نیٹ کیفے کا کاروبار جائز ہے۔ اس لیے کہ انٹرنیٹ بہت سی مفید اغراض اورضرورتوں کو پورا کرتا ہےاور اس کا جائز استعمال موجود ہے اور یہ تجارت اور کاروبار کے لیے بہت بڑا ذریعہ ہے،البتہ جہاں تک ممکن ہو اس کے ناجائز استعمال سے روکنا آپ کی ذمہ داری ہے، مثلاً ایک طریقہ یہ ہےکہ ایسے پروگراموں کو لاک کردیا جائے جو مخرب اخلاق ہوں۔البتہ جس شخص کی بارے میں یقین ہو کہ وہ غلط استعمال کرے گا تو اس کو سروس فراہم کرنا اور اس سے اجرت وصول کرنا جائز نہ ہوگا۔
حوالہ جات
"لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور… وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه العازف" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/268 ط:دار الفکر-بیروت) " والضابط عندهم: أن كل ما فيه منفعة تحل شرعا، فإن بيعه يجوز، لأن الأعيان خلقت لمنفعة الإنسان بدليل قوله تعالى: {خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة:29/ 2]" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي4/3029 ط:دار الفکر) "ويجوز بيع آلات الملاهي من البربط، والطبل، والمزمار، والدف، ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف، ومحمد: لا ينعقد بيع هذه الأشياء؛ لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق، والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها ولأبي حنيفة - رحمه الله - أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء، ونحو ذلك من المصالح فلا تخرج عن كونها أموالا، وقولهما: إنها آلات التلهي، والفسق بها قلنا نعم لكن هذا لا يوجب سقوط ماليتها كالمغنيات، والقيان، وبدن الفاسق، وحياته، وماله، وهذا؛ لأنها كما تصلح للتلهي تصلح لغيره على ماليتها بجهة إطلاق الانتفاع بها لا بجهة الحرمة" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 5/144 ط:دار الکتب العلمیۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب