021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کا میراث میں اپنا حصہ نہ لینا
60179میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم معزز مفتی صاحب میرا سوال ہے کہ ہمارے ہاں جب زمین کی تقسیم ہوتی ہے تو بہنیں حصہ نہیں لیتیں، بہنوں کو ان کا حصہ دینا ضروری ہے نہ دینے والا گناہگار ہے مگر کئی دفعہ کہنے کے باوجود کچھ بہنیں حصہ نہیں لیتیں ایسی صورت میں کیا اس بہن کا حق مارا گیا ہے یعنی گناہگار ہے؟؟؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث کوحصہ داروں میں تقسیم کرنا شریعت کا حکم ہے، جس کی تعمیل ضروری اور لازمی ہے،اس لیے شرعا بہنوں سمیت سب ورثاء کو ان کا مقرر کردہ حصہ دینا ضروری ہے۔زورزبردستی یا معاشرتی دباؤ کے ذریعہ کسی وارث کو اپنا حصہ ء میراث نہ لینے یا دوسرے ورثاء کو ہدیہ (گفٹ) کردینے پر مجبور کرنا شرعاً سخت ناجائز اور سراسر ظلم ہے۔ البتہ اگر بہنیں یا کوئی اور وارث کسی رسم ورواج کے دباؤ میں آئے بغیر، واقعی دلی رضامندی کے ساتھ اپنا حصہ دوسرے سب ورثاء یا کسی خاص وارث کو دینا چاہے تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ذیل میں دیئے گئے دو طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جائے: 1۔ بہن کا حصہ الگ کیا جائے اوراسے اپنے حصہ کا قبضہ اور مکمل اختیار دیا جائے اور اس کے بعد بہن اپنی خوشی و رضامندی سے اپنا حصہ چھوڑدے ، اس میں رسم ورواج کا دخل بھی نہ ہو تو اس صورت میں بھائی گناہ گا ر نہیں ہوں گے۔ 2۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ باقی ورثہ بہن کو کوئی چیز دیں اور بہن اس کے عوض میراث میں اپنے حصہ کو معاف کردے تو یہ درست ہے ،اس لیے کہ یہ بیع ہے اور مشاع چیز کی بیع جائز ہے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب