ہمارے محلےمیں ایک خاتون رہتی ہیں جورشتہ طے کرواتی ہیں اور پھر رشتہ پکا ہوجانے کے بعد دونوں فریقین سے پیسے لیتی ہیں۔کیا اس طرح رشتہ طے کروانے پر پیسے لینا شرعاً جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
رشتہ طے کرانے والےکو اگر رشتہ تلاش کرنے اور طے کرانے میں محنت یا وقت خرچ کرنا پڑتا ہو یا اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہوں (جیسا کہ آج کل بعض جگہوں پر رشتہ تلاش کرنے اور طے کرانے کے دفاتر قائم ہیں )تو ایسی صورت میں رشتہ طے کروانے کی مناسب اجرت لینا جائز ہے،بشرطیکہ فریقین میں سے نہ کسی کو دھوکا دیا جائےنہ ہی کوئی غلط بیانی کی جائے بلکہ سچائی اور امانت کے ساتھ معاملات طے کرائے جائیں ۔
حوالہ جات
الدلالة في النكاح لا تستوجب الأجر وبه يفتي الفضلي في فتاواه ،وغيره من مشايخ زماننا كانوا يفتون بوجوب أجر المثل وبه يفتى. كذا في جواهر الأخلاطي.
(الفتاوى الهندية :4 / 451)
اختلف المشايخ في الدلالة في النكاح هل يكون لها أجر قال الشيخ الإمام أبو بكر مُحَمَّد بن الفضل رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى لا أجر لها لأنه لا منفعة للزوج من كلامها بغير عقد وإنما منفعة الزوج في العقد والعقد ما قال بها * وقال غيره من المشايخ لها أجر مثلها لأن معظم الأمر في النكاح يقوم بالدلالة فإن النكاح لا يكون إلا بمقدمات تكون من الدلالة فكان لها أجر المثل بمنزلة الدلال في البيع فإنه يستحق الأجر وإن كان البيع يكون من صاحب المتاع
(فتاوى قاضيخان:2 / 171)
الدلالة في النكاح قيل لا يجب لها أجر المثل إذ لم يعمل شيئا والزوج إنما ينتفع بالعقد وقيل يجب وبه يفتى لسعيها في مقدمات النكاح كمبيع ويعتبر العرف في قدره من أحكام الدلال من الفصولين
(مجمع الضمانات:1 / 159)