میرے ایک دوست کے پاس مختلف قسم کے جال ہیں جوشکار پکڑنے کے لیےاستعمال کیے جاتے ہیں۔ ان سے وہ خود بھی شکار کرتا ہے اوردوسرے لوگوں کو بھی شکار پکڑنے کے لیے دیتا ہے۔ جب وہ جال کسی دوسرے بندے کو دیتا ہےتو کہتا ہےکہ اس جال سے تم جو بھی جانورشکار کرو گے وہ ہم دونوں کے درمیان برابر ابر ہوگا۔کیا اس کا اس طرح سے شرکت کا معاملہ کرنا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شکارمباحِ عام چیزوں میں سے ہےجس کو پکڑنے کا ہرشخص کو حق حاصل ہے۔ مباح ِعام چیزوں کے حصول کےلیے ایک شخص کا دوسرے کو وکیل بنانا شرعاً صحیح نہیں ،لہذا اس میں شرکت کا معاملہ کرنا بھی صحیح نہیںکیونکہ شرکت صرف اُس معاملہ میں درست ہوتی ہے جس میں وکیل بنانا درست ہواس لیے شکار کرنےمیں شرکت کا یہ معاملہ فاسد ہے،اورفاسد معاملہ کرنا جائز نہیں ،لہذا آپ کے دوست کا اس طرح معاملہ کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
تاہم اگر شکارمیں اس طرح شرکت کا معاملہ کرلیاجائےاور شکار کرنےوالا شکارپکڑلے، تو شکارمیں ملکیت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ آلۂ شکار(جو کہ مسئولہ صورت میں جال ہے)چونکہ مالک(آپ کے دوست) کا ہے اور استعمال دوسرےشخص نے کیا ہے توشکار دوسرے شخص کا ہوگا،اور آپ کا دوست جال کےتعاون کی وجہ سے اجرتِ مثل کا حقدار ہوگا،گویا اس نے دوسرے کوآلۂ شکار دے کر اس کی مددکی توجال کی معروف اجرت کا وہ مستحق ہوگا۔
حوالہ جات
قال العلامۃا لحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(لا تصح شركة في احتطاب واحتشاش واصطياد واستقاء وسائر مباحات) كاجتناء ثمار من جبال وطلب معدن من كنز وطبخ آجر من طين مباح لتضمنها الوكالة والتوكيل في أخذ المباح لا يصح.
(وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل (وما حصله أحدهما بإعانة صاحبه فله ولصاحبه أجر مثله بالغا ما بلغ عند محمد. وعند أبي يوسف لا يجاوز به نصف ثمن ذلك) قيل تقديمهم قول محمد يؤذن باختياره نهر وعناية.
قال العلامۃابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله:( بإعانة صاحبه) سواء كانت الإعانة بعمل كما إذا أعانه في الجمع والقلع أو الربط أو الحمل أو غيره أو بآلة، كما لو دفع له بغلا أو راوية ليستقي عليها أو شبكة ليصيد بها حموي وقهستاني......
(قوله: يؤذن باختياره) قال في العناية: وكذا تقديم دليل أبي يوسف على دليل محمد في المبسوط دليل على أنهم اختاروا قول محمد اهـ أي لأن الدليل المتأخر يتضمن الجواب عن الدليل المتقدم، وهذه عادة صاحب الهداية أيضا أنه يؤخر دليل القول المختار، وعبارة كافي الحاكم تؤذن أيضا باختيار قول محمد حيث قال فله أجر مثله لا يجاوز نصف الثمن في قول أبي يوسف.
وقال محمد: له أجر مثله بالغا ما بلغ ألا ترى أنه لو أعانه عليه فلم يصب شيئا كان له أجر مثله. اهـ. ونقل ط عن الحموي عن المفتاح أن قول محمد هو المختار للفتوى.
وعن غاية البيان أن قول أبي يوسف استحسان اهـ. مطلب يرجح القياس قلت: وعليه فهو من المسائل التي ترجح فيها القياس على الاستحسان.
(الدر المختارمع رد المحتار:4 / 325)
و فی فتاوى قاضيخان :وإن اشتركا في الاصطياد ولهما كلب فأرسلاه فما أصاب الكلب يكون بينهما كما لو نصبا شبكة وإن أرسلا كلبا لأحدهما فما أخذ الكلب يكون لصاحبه لأن إرسال غير المالك لا يعتبر مع إرسال المالك.
(3 / 395)
قال العلامۃا لحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(و) يجب (على كل واحد منهما فسخه قبل القبض) ويكون امتناعا عنه ابن الملك (أو بعده ما دام) المبيع بحاله جوهرة (في يد المشتري إعداما للفساد)لأنه معصية فيجب رفعها بحر.
(الدر المختار :5 / 90)