021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سمسار کی اجرت کاحکم
60294/56-3اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہماری مارکیٹ میں پیکنگ کی تھیلیاں اکثر شارٹ رہتی ہیں ،میں مارکیٹ میں سب سے پرانے دوکانداروں میں سے ہوں اس لیے مجھے سپلائر وافر مقدار میں دیتے رہتے ہیں ،بسا اوقات بعض دوکاندار مجھے کہتے ہیں کہ یار فلاں سے مال دلا دو ،آپ کو تو وہ کہیں سے بھی کر کے دے دے گا،میں کہتا ہوں ٹھیک ہے مگر جتنے کا تم مال لو گے اس کا ایک فیصد مجھے دو گے اور وہ دوکاندار عموماً اس پر راضی ہوجاتا ہے،سوال یہ ہے کہ میرے لیے اس طرح ایک فیصد اجرت لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت کے مطابق شرعی اصطلاح میں آپ سمسار اور عرفی اصطلاح میں کمیشن ایجنٹ ہیں۔کمیشن ایجنٹ کے لیےسوال میں مذکور تفصیل کے مطابق فیصدی کمیشن یا لم سم کوئی متعین اجرت باقاعدہ طے کرکے لینا جائز ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63) قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب