021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موروثی زمین پر ایک وارث کا بلا اذن تعمیرکردہ مکان کاحکم
60337 میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ بارے میں کہ 60گز کے ایک مکان میں ہم چاربھائی شریک ہیں جو ہمیں والد مرحوم کے ترکہ میں ملاتھا، ایک بھائی نے اوپر کی منزل میں اپنے ذاتی پیسے سے ہم سے پوچھے بغیرتعمیربنائی ، ہم لوگ خاموش رہے،اب ہم اس مکان کو باہم تقسیم کرناچاہتے ہیں،تعمیرکرنے والے بھائی کاکہناہے کہ مکان فروخت کرکے پہلے میرے حصہ تعمیرکی قیمت مجھے دیدو،پھر باقی رقم تمام ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردو،کیا ان کایہ کہنا درست ہے ؟شرعی اعتبارسے یہ مکان اوراس میں اضافی تعمیرکس طرح تقسیم ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرواقعۃ آپ بھائی نے مشترکہ موروثی مکان پر تعمیرِ مکان کے لیے باقی بھائیوں سے اجازت نہیں لی تھی تواب اس مکان کاشرعی حکم یہ ہے کہ اس مکان کی عمارت آپ کے تعمیربنانے والے بھائی کی ہے، اور زمین آپ سب کی مشترک ہے،لہذاپہلے مصالحت کی کوشش کی جائے اگر مصالحت کے ذریعے کوئی بات طے ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کیا جائے، ورنہ آپ سب بھائی مکان کی تقسیم کامطالبہ کرسکتے ہیں،تقسیم کے بعد اگر مذکورہ مکان تعمیرکرنے والے بھائی کے حصہ میں آجائے بہت اچھا اوراگر آپ حضرات میں سے کسی کے حصہ میں آجائے تو وہ تعمیرکرنے والے بھائی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنا مکان اُٹھالیں اورمیری جگہ خالی کردیں، اور شرعاًاس پر جگہ خالی کرنا لازمی ہوگا۔ اوراس صورت میں جس بھائی کے حصہ میں مکان آیا ہے اس کو یہ بھی اختیارہےکہ اگر تعمیرکرنے والابھائی قیمت لینے پر راضی تو وہ اس کومکان کے ملبہ کی قیمت دیدےاورمکان خود لےلے۔

حوالہ جات
وفی تنقيح الفتاوى الحامدية(2/157) ( سئل ) فيما إذا بنى زيد قصرا بماله لنفسه في دار مشتركة بينه وبين إخوته بدون إذنهم فهل يكون البناء ملكا له ؟ ( الجواب ) : نعم وإذا بنى في الأرض المشتركة بغير إذن الشريك له أن ينقض بناءه ذكره في التتارخانية من متفرقات القسمة . ( سئل ) في دار مشتركة بين جماعة بنى فيها بعضهم بناء لأنفسهم بآلات هي لهم بدون إذن الباقين ويريد بقية الشركاء قسمة نصيبهم من الدار المذكورة وهي قابلة للقسمة فهل لهم ذلك وما حكم البناء ؟ ( الجواب ) : حيث كانت قابلة للقسمة وينتفع كل بنصيبه بعد القسمة فلبقية الشركاء ذلك ثم البناء حيث كان بدون إذنهم إن وقع في نصيب البانين بعد قسمة الدار فبها ونعمت وإلا هدم البناء كما في التنوير وغيره . فی رد المحتار(6/747سعید) کل من بنی فی دار غیرہ بامرہ فالبناء لآمرہ ولولنفسہ بلاأمرہ فھولہ ولہ رفعہ. وفی شرح المجلۃ (ص:647رقم المادۃ 1173) إذا بنی احد الشرکاء لنفسہ فی الملک المشترک القابل للقسمۃ بدون اذن الآخرین ثم طلب الآخرون القسمۃ تقسم فإن خرج ذلک البناء فی نصیب بانیہ فبھاوإن خرج فی نصیب الآخرفلہ أن یکلف بانیہ ھدمہ ورفعہ .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب