021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاڑی کے کاغذات ایک بیٹے کے نام کرنے کا حکم
60338ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں : کوئی شخص اپنے ایک بیٹے کو کوئی گاڑی خرید کر دیتا ہے،کاروبار کے لیے اور اس کے کاغذات بھی اپنے بیٹے کے نام کرواتا ہے، تو کیا اس شخص کے انتقال کے بعد گاڑی باقی بچوں پر وراثت کے طور پر تقسیم ہوگی یا اس ایک بیٹےکوہی ملے گی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محض کاغذات نام پر کرا دینے سے ملکیت نہیں آتی، بلکہ اس کے باقاعدہ ہبہ کر کے حوالہ کرنا ضروری ہے، لہذامذکورہ صورت میں اگر ہبہ کا قصد نہیں تھا تو صرف کاغذات میں اس کے نام کروانے سے وہ مالک نہیں بنا تھا، بلکہ والد خود مالک تھا ،اس صورت میں گاڑی ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثہ کے درمیان وراثت کے طور پر تقسیم ہوگی۔ البتہ اس صورت میں اگر مقصودگاڑی خرید کر نام کرادینے سے ہبہ کرنا تھا تواس صورت میں گاڑی بیٹے کی ملکیت ہے اور وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
"ویمکن أن یخرّج علی ذالک ما یقع کثیراًمن أنّ الأب یہب داراً لإبنہ ، وھو ساکن معہ فیہا بمتاعہ.فلو أذن الأب إبنہ بقبض متاعہ ودیعۃً ، وسّجل الدار باسم ابنہ بعد الہبۃ ، وصرّح بأنّ کونہ یسکن الدار بعد ذالک موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریہ، وقبِل ذالک الإبن ، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الہبۃ، واللہ سبحانہ اعلم." (فقہ البیوع1/400ط: مکتبۃ معارف القرآن) (فقہ البیوع1/406ط: مکتبۃ معارف القرآن)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب