021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
الکحل والے پرفیوم کا حکم
60343جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

الکحل والے پرفیوم کا کیا حکم ہے ؟ میں نے ایک کتاب (جدید مسائل) میں پڑھا تھا تو وہاں ناجائز لکھا تھا اور بعض علماء سے سنا تو وہ جائز کہتے ہیں ۔برائے مہربانی شرعی حکم واضح فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ الکحل کی دوقسمیں ہیں: (1) ایک وہ جو منقٰی کجھو ر یا انگور کی شراب سے حاصل کی گئی ہو، یہ بالاتفاق ناپاک ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فرخت ناجائز ہے۔ (2) دوسری وہ جو مذکورہ بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور پاک چیز سے حاصل کی گئی ہو، مثلا: جو، آلو، شہد، سبزی، گنا وغیرہ، اس کا استعمال اور خرید وفروخت جائز ہے۔ مذکورہ تفصیل کی روسے پوچھے گئے سوال میں اگر پرفیوم وغیرہ میں استعمال ہو نے والی الکحل منقیٰ، انگور یا کجھور سے حاصل کی گئی ہے تو ایسے پرفیوم کا استعمال اور اس کی خرید و فرخت ناجائز ہے۔ اگر پرفیوم وغیرہ میں استعمال ہو نے والی الکحول مذکورہ اشیاء کے علاوہ، مثلا جو، آلو، شہد، سبزی، گنا وغیرہ سے حاصل کی گئی ہے تو ایسے پرفیوم کا استعمال جائز ہے۔ آج کل عام طور پر پرفیوم وغیرہ میں جو الکحول استعمال کی جاتی ہے وہ انگور یا کجھور سے حاصل نہیں کی جاتی ، بلکہ دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے ، لہذا جب تک دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے کہ پرفیوم میں حرام شرابوں سے حاصل شدہ الکحول ہے ، اس وقت تک اس کو ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔
حوالہ جات
وفی تکلمۃ فتح الملھم: " وبھذا یتبین حکم الکحول المسکرۃ (AL COHALS) التی عمت بھا البلوی الیوم، فانھا تستعمل فی کثیر من الاودیۃ والعطور والمرکبات الاخری، فناھا ان اتخذت من العنب او التمر فلا سبیل الی حلتھا او طھارتھا، وان اتخذت من غیرھما فالامر فیھا سھل علی مذھب ابی حنیفۃ ؒ ، ولا یحرم استعمالھا للتداوی او لاغراض مباحۃ اخری مالم تبلغ حد الاسکار، لانھا انما تستعمل مرکبۃ مع المواد الاخری، ولا یحکم بنجاستھا اخذا بقول ابی حنیفۃ ؒ ، وان معظم الکحول التی تستعمل الیوم فی الادویۃ والعطور و غیرھا لا تتخذ من العنب او التمر، انما تتخذ من الحبوب او القشر او البترول وغیرہ، کما ذکرنا فی باب الخمر من کتاب البیوع ، وحینئذ ھناک فسحۃ فی الاخذ بقول ابی حنیفۃ ؒ عند عمو م البلوی۔واللہ سبحانہ اعلم۔" (تکملۃ فتح الملھم 3/506، کتاب الاشربۃ ط: مکتبۃ معارف القرآن) وفیہ ایضاً: "وانما نبہت علی ھذا لان الکحول المسکرۃ الیوم صارت تستعمل فی معظم الادویۃ ولاغراض کیماویۃ اخری ولاتستغنی عنھا کثیر من الصناعات الحدیثۃ، وقد عمت بھا البلوی واشتدت الیھا الحاجۃ والحکم فیھا علی قول ابی حنیفۃ سھل لانھا ان لم تکن مصنوعۃ من النی من ماء العنب فلا یحرم بیعھا عندہ والذی ظھر لی ان معظم ھذہ الکحول لاتصنع من العنب، بل تصنع من غیرھا،وراجعت لہ دائرۃ المعارف البریطانیۃ المطبوعۃ1950م (1/544) فوجدت فیھا جدولا للمواد التی تصنع منھا ھذہ الکحول فذکر فی جملتھاا لعسل، والدبس، و الحب، والشعیر، والجودار ، و عصیر اناناس(التفاح الصویری) ، والسلفات، والکبریتات ولم یذکر فیہ العنب والتمر فبیعھا للاغراض الکیماویۃ جائزۃ باتفاق بین ابی حنیفۃ و صاحبیہ، وان کانت مصنوعۃ من التمر اوالمطبوخ من عصیر العنب فکذلک عند ابی حنیفۃ، خلافا لصاحبیہ، ولو کانت مصنوعۃ من العنب النئی فبیعھا حرام عندھم جمیعا، والظاھر ان معظم الکحول لا تصنع من عنب ولاتمر فینغی ان یجوز بیعھا لاغراض مشروعۃ فی قول علماء الحنفیۃ جمیعا۔" (تکملۃ فتح الملھم:1/551، حکم الکحول المسکرۃ ط: مکتبۃ معارف القرآن) وقال ابن عابدین-ؒ- : "الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لا يلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل،" (رد المحتار:6/ 459) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب