کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کےبارے میں:
میرادوست موٹرسائیکل مکینک ہے،میں نے اس سے بائیک خریدی جس کو اس نےخود اپنے ہاتھ سے بنائی ہے اور اس کےانجن سے لوکل پارٹس نکال کربہترین پارٹس لگائےہیں،مجھے بہت پسندآئی،اس لیے کچھ مہنگی خریدی،جب گھرلےکرآیا اورچھوٹے بھائی نےچلائی تواس کوبھی پسند آئی،وہ اس کے پیچھے پڑگیااورامی کے ذریعےمجھ سےمانگنےلگا،میں نے امی سے کہاکہ میں یہ نہیں دےسکتا،ہاں دوسری بائیک لے کر دےسکتاہوں،امی نے کہا کہ نیو بائیک خرید کر دوگے،پرانی نہیں،میں نے یقین دلانےکےلیےقسم کھائی کہ ہاں نیو بائیک گفٹ کروں گا۔میں نے نئی بائیک خرید ی لیکن وہ ضدی ہے،کہتاہے کہ تمہاری ایک چیز بھی نہیں لوں گا،بائیک تقریبا دو مہینے بےکارکھڑی خراب ہورہی تھی،اس لیے امی کہنے پر میں نے فروخت کردی،مولوی صاحب میں اپنی قسم کیسے پوری کروں؟کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ میرا ضدی بھائی بائیک لےگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں موٹرسائیکل خریدکربھائی کوہدیہ کردینےسےآپ کی قسم پوری ہوچکی،بھائی کاقبول کرنا ضروی نہیں۔
حوالہ جات
(حلف ليهبن فلانا فوهبه له فلم يقبل بر) وكذا كل عقد تبرع كعارية ووصية وإقرار (بخلاف البيع) ونحوه حيث لا يبر بلا قبول. (الدر المختار) (قوله ونحوه) كالإجارة والصرف والسلم والنكاح والرهن والخلع بحر (قوله وكذا في طرف النفي) فإذا قال: لا أهب حنث بالإيجاب فقط بخلاف لا أبيع (قوله والأصل إلخ) الفرق أن الهبة عقد تبرع، فيتم بالمتبرع أما البيع فمعاوضة فاقتضى الفعل من الجانبين. (رد المحتارعلي الدر المختار:3/ 845)
قوله (يبر بالهبة بلا قبول بخلاف البيع) فإذا حلف ليهبن فلانا فوهب له فلم يقبل فإنه يبر، ولو حلف ليبيعن كذا فباعه فلم يقبل المشتري لا يبر. (البحر الرائق :4/ 401)