03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجازت کے بغیر والد کی طرف سے زکوة اداکرنے کا حکم
60565-2زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

میرے والد صاحب پر پچھلے کئی سالوں سے زکوة فرض ہے ،انہوں نے ادا نہیں کی ،اب میں اپنی ذاتی رقم سے ان کی طرف سے زکوة ادا کرنا چاہتا ہوں ،یہ عمل ان کی اجازت کے بغیر ہے ، کیونکہ انہیں بتانے کی صورت میں منع کرنے کا اندیشہ ہے ، کیا ان کی اجازت کے بغیر میرے ادا کرنے سے ان کی زکوة ادا ہوگی یا نہیں ؟ اس کا حساب کیسے ہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تک آپ کے والد حیات ہیں ،خودان پر اپنے مال کی زکوة اداکرنا فرض ہے ، اس میں کوتاہی کرنا بڑا سخت گنا ہے ، آپ والد کی حیات میں ان کے مال کی زکوة ادا کرنا چا ہیں توان سے اجازت لینا ضروری ہے ، اس کے بغیر ان کے مال کی زکوة ادا نہ ہوگی ۔ ان کو چاہئے کہ اب تک جوکوتاہی ہوئی اس سے توبہ کریں ،اور گزشتہ سالوں کا حساب لگاکر تمام سالوں کی زکوة اداکریں ۔ حساب کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی زکوة منہا کرنے کے بعد جو رقم باقی بچی دوسرے سال اس کی زکوة ﴿٪ 5 . 2 ﴾ادا کرے ، پھر اس کے بعد جو رقم باقی ہے تیسرے سال اس کی زکوة دے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 268) (وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية (قوله: وشرط صحة أدائها إلخ) قد علم اشتراط النية من قوله أولا لله تعالى، لكن ذكرت هنا لبيان تفاصيلها أفاده في البحر (قوله نية) أشار إلى أنه لا اعتبار للتسمية؛ فلو سماها هبة أو قرضا تجزيه في الأصح، وإلى أنه لو نوى الزكاة والتطوع وقع عنها عند الثاني لأن نية الفرض أقوى وعند الثالث يقع عنه، وإلى أنه ليس للفقير أخذها بلا علمه إلا إذا لم يكن في قرابته أو قبيلته أحوج منه فيضمن حكما لا ديانة، وإلى أن الساعي لو أخذها منه كرها لا يسقط الفرض عنه في الأموال الباطنة، بخلاف الظاهرة هو المفتى به، وإلى أنها لا تؤخذ من تركته لفقد النية إلا إذا أوصى فتعتبر من الثلث، وتمامه في البحر. زاد في الجوهرة: أو تبرع ورثته. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 260) فلو كان له نصاب حال عليه حولان ولم يزكه فيهما لا زكاة عليه في الحول الثاني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 7) إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب