مہربانی فرماکر کچھ رہنما اصول بیان فرمایئے کہ اللہ رب ذوالجلا ل ہمیں اس کام کو سنت کے مطابق کرنے والابنادے۔ آمین
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عن عبد اللہ ص قال: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة '' رواہ البیہقی فی شعب الیمان ( مشکوة ص ٢٤٢)
'' حضرت عبد اللہ ص سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فرائض کے بعد حلال کمائی کا حاصل کرنا فرض ہے۔''
البتہ کمانے میں درج ذیل چیزوں کی رعایت ضروری ہے:
(١) حلال طریقے سے ہو۔
(٢) اس میں اس قدر مشغولیت نہ ہو کہ انسان اللہ تعالیٰ کی یاد سے بالکل غافل ہو جائے یا کمائی کو اللہ تعالیٰ کی یادپر ترجیح دے۔
(3) دھوکہ دہی سے خالی ہو۔منافع حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقے اختیار نہ کیے جائیں۔
رزقِ حلال کے حصول کے ذرائع میں سے تجارت ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آیت: ''یاایھا الذین اٰمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارةً عن تراض منکم'' (سورة النساء آیت: ٢٩) کے تحت مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں صرف تجارت ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسبِ معاش کے ذرائع میں سے تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعۂ معاش ہے۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی حلال اور طیب ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''عمل الرجل بیدہ و کل بیع مبرور'' یعنی انسان کے ہاتھ کی مزدوری اور ہر سچی بیع و شراء (جس میں جھوٹ اور فریب نہ ہو) (معارف القرآن٢/٣٧٩)
اور نبی کریم ﷺنے شریعت کے مطابق تجارت کرنے والوں کا حشر انبیائِ کرام علیہم السلام، صدیقین، شہداء کے ساتھ بتلایا ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : التاجر الصدوق الأمین مع النبیین و الصدیقین و الشہداء۔ رواہ الترمذی و الدارقطنی۔ ( مشکوة ص٢٤٣)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: التجار یحشرون یوم القیامة فجاراًالا من اتقیٰ وبر وصدق'' رواہ الترمذی و ابن ماجہ ( مشکوة ص٢٤٢)
'' قیامت کے روز تاجر لوگ فاجر گناہگاروں کی صف میں ہونگے بجز اس شخص کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور نیکی کا معاملہ کرے اور سچ بولے ۔''