021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکی زندگی میں ان کے مال میں اولادکاکوئی حق نہیں ہے
60897ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہم چاربھائی اوردو بہنیں ہیں میرے والد صاحب حیات ہیں، ہمارا گھرہے جو 200گزپر بناہوا ہے جوکہ والد صاحب کے نام پرہے ہم سب بھائیوں اوربہنوں کی شادی ہوچکی ہے ہم تین بھائی اوروالد صاحب ایک ساتھ رہتے تھے،جمعہ سے چھوٹے بھائی نے لڑائی کرکے گھر سے علیحدگی اختیارکرلی ہے،جبکہ والد کی عمر80سال سے زائدہے اوروہ ضعیف بھی ہوگئے ہیں چھوٹا بھائی دوسروں سے کہتاہے کہ مجھے میراحصہ دوکیا والدصاحب کی حیات میں اس کا حصہ ہوسکتاہے ؟ اوراگر ہوسکتاہے تو کیسے ؟میرا ارادہ ہے کہ یہ مکان میں والد صاحب سے قیمۃً خریدکراپنے نام کرلوں اوروالد صاحب سب بھائیوں اوربہنوں کو اپنے حیات ہی میں اس مکان کی قیمت میں سےان کے حصے دے دیں پھر کوئی بھی حصے کا تقاضہ نہ کرے، کیا ایساہوسکتاہے ،جبکہ والد صاحب بزرگ ہیں اورحیات ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ زندگی میں اولاد کو کچھ دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں ،کیونکہ میراث موت کے بعدتقسیم کی جاتی ہے اور کسی کو کوئی چیز ہبہ کرنا اورنہ کرنا یہ بندے کا اختیاری عمل ہے ، اس میں وہ شرعاً مجبورنہیں، اورنہ ہی اس کو مجبورکیاجاسکتاہے،تاہم اگرکوئی اپنی خوشی سےاولاد کو زندگی میں کچھ دینا چاہے تو شرعاً اس کی بھی اجازت ہےاوراس میں پھر افضل یہ ہے کہ تمام بیٹوں اوربیٹیوں کو برابر دے اوران میں تفریق نہ کرے، تاہم اگر اولادمیں سےکسی کو تکلیف دینے کی نیت نہ ہو اور بعض کوزیادہ دینے کی کوئی جائزوجہ مثلاً فرمانبرداری، خدمت، علم وغیرہ ہوتو کمی بیشی میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لہذا مسئولہ صورت میں جو مکان آپ کے والدکاہےوہ صرف انہیں کی ملک ہے،ان کی زندگی میں بچوں کا اس میں کوئی حق نہیں،اگر آپ کے والداس کوتقسیم نہیں کرنا چاہتے تو شرعاً اس پر وہ مجبورنہیں اوربچے اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے،لہذا آپ کے چھوٹے بھائی کاوالد سے مکان میں حصے کا مطالبہ کرناغلط ہے، ہاں اگرآپ کے والداپنی خوشی سےتقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا بہترطریقہ یہ ہے کہ جتنا حصہ وہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں وہ رکھ کر باقی مکان کے برابرچارحصے بنائیں اور ہربیٹے اوربیٹی کو ایک ایک حصہ الگ الگ کرکے دیدیں اوراس پر اس کا قبضہ بھی کرادیں،قبضہ کے بغیر یہ ہبہ مکمل اورنافذ نہیں ہوگا،البتہ اگر مکان چھوٹا ہے اورتقسیم کے قابل نہیں تو پھر صرف حصوں کی تعیین بھی ہبہ مکمل ہونے کے لیے کافی ہے ،نیز جب ناقابلِ تقسیم ہوتو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسے فروخت کرکے اس کی قیمت تقسیم کی جائے ،فروخت کرنے کی صورت میں بیٹوںمیں سے بھی کسی کوفروخت کیاجاسکتاہے ،البتہ اگردوسرے ورثہ اس پر اعتراض کرتے ہوں توپھر کسی اجنبی کوبیچنا چاہیے ۔
حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176) عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين. السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 177) عن ابن عباس قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« سووا بين أولادكم فى العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء ». وفی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400 رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. رد المحتار - (ج 24 / ص 42) ( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب