جناب مفتی صاحب عرض یہ ہے کہ ایصال ثواب کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟ایصال ثواب کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا جا تا ہے اس کی کیا اصل ہے ،براہ کرم مکمل طریقہ اور الفاظ بتلادیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ایصال ثواب کا طریقہ یہ ہے کہ جوبھی بدنی عبادت ،نماز ،تلاوت ،ذکر وغیر ہ ،یا مالی عبادت جیسے صدقات خیرات وغیرہ کی جائے ،اس کے کرنے سے پہلے یہ نیت کرلی جائے کہ اللہ تعالی اس کا اجر وثواب ،فلاں فلاں مرحومین کو پہنچادے ،اس طرح نیت کرلینے سےان شااللہ تعالی عمل کا ثواب مرحومین کو پہنچ جائے گا ۔ اگر نیک عمل انجام دینے کے بعد ان الفاظ سے دعا کی جائے یا اللہ ان اعمال کا اجر وثواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچادے ، اور میرے فلاں فلاں رشتہ داروں کو پہنچادےیہ زیادہ بہتر طریقہ ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےامت پر عظیم احسان کا تقاضا ہے کہ ان کے لئے ایصال ثواب کیاجائے ، اور اس سے دعا قبول ہونے کی زیادہ امید بھی ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 243)
صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة،
الی قولہ یوفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا. والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ۔ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره، لإطلاق كلامهم، وأنه لا فرق بين الفرض والنفل. اهـ.
الی قولہ قلت: وقول علمائنا له أن يجعل ثواب عمله لغيره يدخل فيه النبي - صلى الله عليه وسلم - فإنه أحق بذلك حيث أنقذنا من الضلالة، ففي ذلك نوع شكر وإسداء جميل له، والكامل قابل لزيادة الكمال. وما استدل به بعض المانعين من أنه تحصيل الحاصل لأن جميع أعمال أمته في ميزانه. يجاب عنه بأنه لا مانع من ذلك،
فإن الله - تعالى - أخبرنا بأنه صلى عليه ثم أمرنا بالصلاة عليه، بأن نقول: اللهم صل على محمد، والله أعلم.