021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نیوتہ کاحکم
61252نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

شادی بیاہ میں جو لوگ لفافہ یا تحفہ دیتے ہیں اسے وصول کرناچاہیے یانہیں،سوال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس لیے دیتے ہیں کہ بغیرلفافے یاتحفہ کے جائیں گے تو برالگے گا یا اس نے فلاں موقع پر ہمیں بھی لفافہ دیاتھا ،اگرچہ لفافے کے پیسے لکھنے کا رواج اب تقریباختم ہوگیاہےجیسے پہلے رجسٹرمیں لکھاجاتاتھااورپھر اس کے مطابق لوٹایا جاتاتھا اب ایسا لکھنے کا رواج نہیں،دوسرطرف اگر دیکھاجائے تو بہت سے لوگ دل سے لفافہ یاتحفہ بھی دے رہے ہوتے ہیں ان سے نہ لیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اورحدیث میں تحفہ لینے دینے کی جو ترغیب آئی ہے اس کے بھی خلاف ہوجاتاہے سائل کو اس حوالے سے کیاکرناچاہیے ؟سائل ولیمہ/شادی کے کارڈ پر یہ تحریرلکھوانا چاہتاہے کہ "تحفہ یالفافہ قبول کرنے سے معذرت خواہ ہوں"لیکن اس میں بھی یہی بات ہے کہ حدیث میں تحفہ لینے دینے کے حوالے سے ترغیب آئی ہے اس کے خلاف نہ ہوجائے اوربہت سے لوگ دل سے دیتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شادی بیاہ کے موقعہ پر مروجہ طریقے سے پیسے وصول کرنے کو ”نیوتہ“ کہا جاتا ہے، جو ایک جاہلانہ رسم ہونے کے ساتھ دیگر کئی مفاسد پر مشتمل ہے، اس کی شرعی حیثیت قرض کی ہے، کیونکہ اس میں عوض اور بدل کی قید صراحتاً یا تعاملاً موجود ہوتی ہے ، لہٰذا عقدِ قرض کے تمام احکامات ”نیوتہ“ پر مرتب ہوں گے، جب کہ مروجہ ”نیوتہ“ میں ان احکامات پر عمل نہیں ہوتا، مثلاً: 1۔قرض بلاضرورت نہیں لینا چاہیے،جب کہ مروجہ”نیوتہ“ میں نیوتہ کی رقم دینے و الے کے اپنے اختیار سے دی جاتی ہے، جس کو لینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ لینے کو برادری والے برا سمجھتے ہیں۔ 2۔قرض کی واپسی سے متعلق ارشاد باری ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے مہلت دے دینی چاہیے، جب تک کہ وہ دے سکے، جبکہ مروجہ ”نیوتہ“ میں ادائیگی کا خاص وقت مقرر ہوتا ہے، یعنی دینے والے کے ہاں اس جیسی کوئی تقریب ہو ( شادی بیاہ) چاہے اس وقت سودی قرض ہی لینا پڑے، جبکہ یہ گنا ہ ہے۔ 3۔مقروض پر ضروری ہے کہ ادائیگی پر قادر ہوتے ہی اپنے ذمہ سے اس بوجھ کو اتار دے ، جب کہ اس رسم میں مخصوص موقع (شادی) سے پہلے واپس نہیں کر سکتا۔ 4۔بسا اوقات اس میں زیادتی کی جاتی ہے اور بعض جگہوں میں باقاعدہ مطالبہ ہوتا ہے، جبکہ قرض پر زیادتی سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ 5۔نیوتہ“ لینے والا بلا ضرورت کئی آدمیوں کا مقروض ہو جاتا ہے اور مقروض کے لیے احادیث میں وعیدیں آئی ہیں ،الغرض! اس سے اجتناب ضروری ہے،لہذاآپ کو چاہیے کہ لوگوں کو پیار محبت سے سمجھائیں اورکارڈ پریہ لکھ سکتے کہ "چونکہ شرعاًمروجہ تحائف لینا درست نہیں، اس لیے کوئی دینے کی زحمت نہ کرے" ہاں! طمع ولالچ اور عوض کی نیت کے بغیر شادی کے اس خاص موقع کے علاوہ کسی وقت تحفہ کے طور پر رشتہ دار کچھ دے دیں تو اس کی گنجائش ہے اور اس سے آپس میں محبت بھی بڑھتی ہے۔ البتہ کسی قسم کے بدلے ،رسم ورواج کی اتباع کی نیت کے بغیرمحض خوشی کے موقع کی مناسبت سےاگرکوئی رقم ہدیہ کرے تویہ جائز ہوگا،بعض علماء نےاس کو مسنون بھی کہاہے، کیونکہ جب آپﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہاسے نکاح کیا تو حضرت ام سلیم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ہدیہ دے کر آپﷺ کی خدمت میں بھیجاتھااورآپﷺنے اس کواستعمال فرمایاتھا۔،البتہ اس معاملے میں حد سے تجاوز کرنا اور اسے لازم سمجھ کر لینا ،دینا اور نہ دینے والے پر طعن و تشنیع کرنا یا برے جذبات دل میں لانا ان امور سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696) وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ.قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه وفی البخاری (۷۷۵/۲): باب الھدیۃ للعروس: وقال إبراهيم: عن أبي عثمان واسمه الجعد، عن أنس بن مالك ؓ قال: مر بنا في مسجد بني رفاعة، فسمعته يقول: كان النبي ﷺ إذا مر بجنبات أم سليم دخل عليها فسلم عليها، ثم قال: كان النبي ﷺ عروسا بزينب، فقالت لي أم سليم: لو أهدينا لرسول الله ﷺ هدية، فقلت لها: افعلي، فعمدت الى تمر وسمن وأقط، فاتخذت حيسة في برمة، فأرسلت بها معي إليه، فانطلقت بها إليه، فقال لي:ضعها ، ثم أمرني فقال:ادع لي رجالا سماهم وادع لي من لقيت قال: ففعلت الذي أمرني، فرجعت فإذا البيت غاص بأهله، فرأيت النبي ﷺ وضع يديه على تلك الحيسة وتكلم بها ما شاء الله، ثم جعل يدعو عشرة عشرة يأكلون منه۔الخ۔و فی الترمذی (۳۴/۲):عن أبى هريرة ؓ عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال: تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولو شق فرسن شاة. وفی عمدۃ القاری (۱۵۱/۲۰): وفيه فوائد الأولى كونه أصلا في هدية العروس وكان الإهداء قديما فأقرها الإسلام.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب