سوال:عرض ہے کہ میری والدہ محترمہ میرے پاس رہتی ہیں ۔بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں ۔ان کی ساری کفالت میں خود کرتا ہوں ،جبکہ میرے اور بہن بھائی بھی ہیں ۔ پوچھنا یہ ہے کہ میری والدہ کی ملکیت میں موجود رقم میں سے اپنی مرضی سے انکے علاج معالجے اور انکی کی دیگر ضروریات میں خرچ کر سکتا ہوں ،یا سب اپنی جیب سے خرچ کروں،اور ان کی رقم کو جمع کرتا رہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدین کی خدمت بہت بڑی سعادت اور آخرت میں نجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور والدین کا نان نفقہ اولاد پر واجب ہے۔
ولی کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ اپنی صوابدید پر جہاں مناسب سمجھے نیک نیتی کے ساتھ زیر ولایت شخص کا مال اس کے فائدے میں خرچ کرے۔
مذکورہ صورتحال میں سائل اپنی والدہ کا ولی ہے ،لہذا وہ ان کی رقم کو ان کی ضروریات پر ضرورت کے مطابق خرچ کر سکتا ہے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (4/ 1974)
"جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال من أحق الناس بحسن صحابتي ؟ قال أمك قال ثم من ؟ قال ثم أمك قال ثم من ؟ قال ثم أمك قال ثم من ؟ قال ثم أبوك"
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 64)
(قوله وهي تجب) أي نفقة الأبوين على الأولاد الذكور والإناث قال في التتارخانية فإن كان الأولاد ذكورا أو إناثا موسرين فنفقة الأبوين عليهم بالسوية في أظهر الروايتين، وفي الخانية، وعليه الفتوى
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 268)
إن الولي يتصرف في مال الصغير بطريق النيابة عنه شرعا لعجزه عن التصرف بنفسه
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (7/ 43)
وهذا لان الولى يتصرف في مال الصبى على وجه
المصلحة والمصلحة قد تكون في الشراء وقد تكون في تركه والولى أعلم
بذلك فيفوض إليه
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم