ہمارے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات میں ایک رسم رائج ہے جسے ہماری علاقائی زبان میں "نازوونی"اور"وٹہ سٹہ" کہتے ہیں ،اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً لڑکی والے لڑکے والوں سے یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ طے کریں کہ اس لڑکی کے بدلے آپ بھی ہمارے لڑکے کو نکاح میں لڑکی دیں گے ،اگر ابھی لڑکی نہیں ہے یا فی الحال دینا نہیں چاہتے تو یہ عہد کرلیں کہ اس رشتے سے جومؤنث اولاد ہوگی اس میں سے ایک لڑکی ہماری ہوگی، چاہے ہم اپنے خاندان میں اس کا رشتہ طے کرلیں یا کسی اورخاندان سے وٹہ سٹہ کرتے وقت رشتے میں دیدیں ،برائے کرم اس کاحکم بیان فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پہلے بطورتمہید یہ سمجھیں کہ نکاحِ شغار جسےعرفِ عام میں "وٹہ سٹہ" کہتے ہیں کو شریعتِ اسلامیہ نے منع فرمایا ہے،کیونکہ اس میں خواتین کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان پر ظلم ہوتا ہے، نیز حقِ ولایت میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام میں وٹہ سٹہ نہیں ہے) مسلم: (1415)اسی طرح جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وٹہ سٹہ سے منع فرمایا" مسلم: (1417) بالخصوص ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کی کمی کی وجہ سے اس اس کےنقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کس کا گناہ ہے،بلکہ جب ایک طرف کوئی مسئلہ بن جائے تو دوسری طرف والا لڑکا اپنی بہن کی غلطی پوچھے بغیر اپنی بیوی کے ساتھ بھی وہی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جو دوسری طرف اس کی بہن کےساتھ اختیار کیاگیا ہوتا ہے،ایک طرف طلاق ہو جائے تو دوسری طرف بے گناہ ہونے کے باوجود طلاق دے دی جاتی ہے، یعنی حقیقت کو نہیں دیکھا جاتا بس عمل کا رد ّعمل ہوتا رہتا ہے،اسی طرح اگرایک لڑکی کی زندگی اس کے کرتوتوں کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے تو دوسری طرف بھی ایک بے گناہ لڑکی کی زندگی تباہ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے،اس لیے بہتر ہے کہ وٹہ سٹہ سے پرہیز کیا جائے تاکہ زندگی سکون سے گزر سکے،تاہم اگر کوئی اس طرح نکاح کرلیتاہے اورطرفین سے مہر طے ہوجاتاہے تو ایسا نکاح بہرحال منعقد ہوجاتاہے ،اسی طرح اگر مہر مقرنہ کیا تو بھی حنفیہ کے ہاں نکاح منعقد ہوجاتاہے اورطرفین سے مہرِ مثل واجب ہوتاہے۔
سوال میں مذکوررسم محض ایک وعدہ نکاح ہے اورمذکورہ بالامفاسد کی وجہ سے قابلِ ترک ہے،بلکہ اگر اس وعدے کے نتیجے میں لڑکی پرظلم ہوناواضح اوریقینی ہوتو ایسے وعدےپر عمل درآمدکرنا جائز ہی نہیں، ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے فضول اور مزاجِ شریعت کے خلاف رسم و رواج ختم کرنے کی پوری کوشش کرے، اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو ان خرافات سے محفوظ رکھیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 51)
نكاح الشغار وهو أن يجعل بضع كل من المرأتين مهرا للأخرى، فإنه صح النهي عنه وقلنا يصح موجبا لمهر المثل لكل منهما فلم يلزمنا النهي،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 106)
(ووجب مهر المثل في الشغار) هو أن يزوجه بنته على أن يزوجه الآخر بنته أو أخته مثلا معاوضة بالعقدين وهو منهي عنه لخلوه عن المهر، فأوجبنا فيه مهر المثل فلم يبق شغارا
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 105)
قال في النهر: وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك فقبل أو على أن يكون بضع بنتي صداقا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقا لم يكن شغارا بل نكاحا صحيحا اتفاقا وإن وجب مهر المثل في الكل، لما أنه سمى ما لا يصلح صداقا، وأصل الشغور: الخلو، يقال بلدة شاغرة إذا خلت عن السكان، والمراد هنا الخلو عن المهر لأنهما بهذا الشرط كأنهما أخليا البضع عنه نهر
وفی حاشية رد المحتار (ج 3 / ص 12):
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال: أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد وإن كان للعقد فنكاح ا ه.