کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں محمد حفیظ ولد محمد بلوچ آج مؤرخہ 2017-10-09 کو بالکل ہوش وحواس میں ہوں،کوئی دباؤ نہیں ہے۔آج میں اپنی بیوی سعیدہ بیگم کو اپنی زندگی سے آزاد کرتا ہوں،اس کو طلاق دیتا ہوں،آج کے بعد میرا اِس پر یا اس کو میرے اوپر کوئی حق نہیں ہے۔وہ میری طرف سے آزاد ہے۔میں اللہ کو گواہ رکھ کر لکھ رہا ہوں کہ وہ میری طرف سے فارغ ہوگئی ہے،یعنی طلاق ہو چکی ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ان الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہو گئی ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں کل چھ جملے استعمال ہوئے ہیں۔آپ کا پہلا جملہ یہ ہے:”میں اپنی بیوی کو اپنی زندگی سے آزاد کرتا ہوں“۔اس میں ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہونے کی وجہ سے یہ لفظ صریح ہے،لہذا نیت ہو یا نہ ہو اِس لفظ سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہے۔اسی طرح دوسرا جملہ ”اس کو طلاق دیتا ہوں“بھی صریح ہے اور”الصریح یلحق الصریح“کے قاعدے کی رو سے اس سے ایک اور طلاقِ رجعی واقع ہو جائے گی۔اِس کے بعد تیسرا جملہ ”میرا اس پر یا اس کا میرے اوپر کوئی حق نہیں ہے“کنایہ ہے،اسی طرح اس کے بعد والا جملہ بھی تفریع کو محتمل ہونے کی وجہ سے کنایہ ہے لہذا اگر ان دونوں جملوں سے طلاق کی نیت ہے تو ایک مزید طلاقِ بائن واقع ہو کر تین طلاقیں مکمل ہو جائیں گی اور اب حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔اور اگر ان دونوں سے طلاق کی نیت نہیں ہے تو پھر مذکورہ صورت میں دو ہی رجعی طلاقیں واقع ہوئی ہیں،اِس صورت میں دورانِ عدت رجوع اور عدت گذرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش ہے،مگر واضح رہے کہ اب شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ جائے گا،اگر کبھی ایک طلاق بھی دے دی تو حرمتِ مغلظہ ثابت ہو جائے گی۔
حوالہ جات
وفی الھندیۃ: في مجموع النوازل: امرأة قالت لزوجها:” أنا بريئة منك“، فقال الزوج:” أنا بريء منك أيضا ”،فقالت :انظر ماذا تقول، فقال: ما نويت الطلاق لا يقع الطلاق ؛لعدم النية. كذا في المحيط .
)الفتاوى الهندية (8/ 338)
وفی الھندیۃ: ولو قال لها:” لا نكاح بيني وبينك“، أو قال :”لم يبق بيني وبينك نكاح“ يقع الطلاق إذا نوى .ولو قالت المرأة لزوجها : ”لست لي بزوج“، فقال الزوج: صدقت، ونوى به الطلاق يقع في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى .كذا في فتاوى قاضي خان .) الفتاوى الهندية :8/ 325)
ولو قال: ”لم يبق بيني وبينك شيء“، ونوى به الطلاق لا يقع. وفي الفتاوى: لم يبق بيني وبينك عمل، ونوى يقع. كذا في العتابية . (الفتاوى الهندية :8/ 329)
فی دررالحکام: (لا سبيل لي عليك، لا نكاح بيني وبينك، لا ملك لي عليك) احتمالها للطلاق ظاهر، وأما احتمال الرد فلأن كلا منها جحود للنكاح، فلا يكون طلاقا، بل كذبا كما سيأتي، فوجب الحمل على الرد بأبلغ وجه (ومرادفها) من أي لغة كان. (درر الحكام شرح غرر الأحكام :1/ 369)
قال الحصکفی رحمہ اللہ : (الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية ،بائنا كان الواقع به أو رجعيا .فتح.
وقال الشامی رحمہ اللہ:”قوله :(الصريح يلحق الصريح): كما لو قال لها: أنت طالق ،ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني. بحر. فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا…وإن كان الطلاق رجعيا يلحقها الكنايات ؛لأن ملك النكاح باق“.
و قال الحصکفی رحمہ اللہ أیضاً : ” فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة .والكنايات ثلاث :ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا“ … إلی قولہ:” ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري ،أمرك بيدك ،سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال .(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو ؛لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية ؛لأنها أقوى؛ لكونها ظاهرة، والنية باطنة.
وقال الشامی رحمہ اللہ : قوله:( أنت حرة): أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح ، وكذا كوني حرة أو اعتقي؛كما في البدائع . ..ثم فرق بينه وبين” سرحتك“ فإن ”سرحتك “كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال " رهاكردم " أي” سرحتك “يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا ؛لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت ، لكن لما غلب استعمال ”حلال الله“ في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ،ولولا ذلك لوقع به الرجعي. “( الدر المختارمع ردالمختار:516-522،مکتبہ دارالمعرفۃ،بیروت)