میں نے کسی عالم سے سنا تھا کہ اگر کسی کو زکاۃ ادا کرنے کا وکیل بنایا جائے اور اسے زکاۃ کے پیسے دیدیے جائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ انہی پیسوں سے زکاۃ ادا کرے۔ اگر اپنی طرف سے پیسے ادا کردیے تو زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ میرے بینک اکاونٹ میں امریکہ سے زکاۃ کے پیسے آتے ہیں، میں عام طور سے وہ پیسے اپنی طرف سے کسی مستحق کو دے دیتا ہوں اور بعد میں وہ پیسے بینک سے لے لیتا ہوں۔ تو کیا ایسے کرنے سے زکاۃ ادا ہوجاتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ایسے کرنے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی بشرطیکہ وہ رقم بینک میں موجود ہو اور آپ کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ آپ اس رقم سے تبادلہ کر لیں گے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: "(قوله ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم المؤكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم المؤكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع، وعلى هذا التفصيل الوكيل بالإنفاق أو بقضاء الدين أو الشراء كما سيأتي إن شاء اللہ تعالى في الوكالة. وفيه إشارة إلى أنه لا يشترط الدفع من عين مال الزكاة، ولذا لو أمر غيره بالدفع عنه جاز كما قدمناه." (رد المحتار:2/ 269)
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: "(قوله ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان، أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير... ثم قال في التتارخانية: أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات." (رد المحتار:2/ 269)