021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرنے سے پہلے ہبہ کی گئی جائیداد کاحکم
62458/57ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی،جس کا نام جان صاحب ہے،اس کی دو بیویاں تھیں۔ایک بیوی کو اپنے مرنے سے بیس سال پہلے مال ودولت اور زمین میں سے حصہ دے کر الگ رہائش دے رکھی تھی۔زمین میں سے ایک پلاٹ(20 بائی 20)اپنے بڑے بیٹے کو دے دیا۔باقی مال و دولت اپنے پاس رکھا۔اب اس کے مرنے کے بعد اس کی چھوٹی بیوی بیٹے والے پلاٹ میں سے حصہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔آیا اِس کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟نیز کیا پرانی تقسیم درست ہے یا اس میں ترمیم کرنی پڑےگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر جان صاحب نے وہ پلاٹ بیٹے کے حوالے بھی کردیاتھا،تو وہ بیٹے کا ہو گیا ہے،بیوی کا اس میں سے حصہ کا مطالبہ درست نہیں۔البتہ جو مال و دولت جان صاحب نے اپنی ملکیت میں باقی رکھا تھا،وہ ان کے مرنے کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوگا اور اس میں دوسرے ورثہ کی طرح یہ بیوی بھی حصہ دار ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح.(وركنها) هو (الإيجاب والقبول) كما سيجيء.(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له). وقال أیضا:(ويستحق الإرث) ولو لمصحف، به يفتى(برحم ونكاح) صحيح، فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا. (الدر المختار مع رد المحتار:5/ 688،6/ 762)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب