(1)۔۔۔ داڑھی کے بال وضو اور غسل کرتے ہوئے باتھ روم میں پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ کیا ان کی احتیاط لازم ہے؟
(2)۔۔۔ نیز جب نائی بال بناتا ہے تو داڑھی جب نائی بال بناتا ہے تو داڑھی کے بالوں کو ایک ہی کچرے میں ڈال دیتا ہے۔ کیا اس کی گنجائش ہے؟ جبکہ داڑھی میں سفید بال بھی ہوتے ہیں، اور حدیث شریف کے مطابق اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی سفید داڑھی سے حیاء کرتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ وضو اور غسل کے دوران اس طرح احتیاط کرنے میں مشقت اور حرج کا اندیشہ ہے، اس لیے اگر بلا قصد وارادہ کچھ بال گرجائیں اور پانی میں بہہ جائیں تو امید ہے کوئی حرج نہیں ہوگا۔ البتہ قصداً بالوں کو غسل خانہ وغیرہ میں گرانا مکروہ ہے۔
(2)۔۔۔ داڑھی کو ایک مٹھی سے کم کرنا گناہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ ایک مٹھی سے زائد بال کاٹ سکتے ہیں، ان میں سفید بالوں کو الگ کرنا ضروری نہیں ہے، سفید و سیاہ بالوں کو ایک ساتھ دفن کرنے یا ایک ساتھ کسی پاک جگہ میں ڈالنے سے سفید بالوں کی بے ادبی لازم نہیں آتی، جبکہ سفید بالوں کو الگ کرنے میں مشقت اور حرج ہے۔
حوالہ جات
كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (15/ 673):
42682- يقول الله تعالى: إني لأستحيي من عبدي وأمتي يشيبان في الإسلام، فتشيب لحية عبدي ورأس أمتي في الإسلام أعذبهما في النار بعد ذلك ."ع - عن أنس".
إتحاف الخيرة المهرة (4/ 552):
4137- وقال أبو يعلى الموصلي : حدثنا سويد بن سعيد , حدثنا سويد بن عبد العزيز ، عن نوح، عن أيوب ، عن الحسن ، عن أنس ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يقول الله تبارك وتعالى : إني لأستحيي من عبدي ، وأمتي ، يشيبان في الإسلام ، فتشيب لحية عبدي ، ورأس أمتي في الإسلام أن أعذبهما بعد ذلك.
كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (7/ 127):
18320- كان يأمر بدفن سبعة أشياء من الإنسان: الشعر والظفر والدم والحيضة والسن والعلقة والمشيمة. "الحكيم عن عائشة".
فتاوى قاضيخان (3/ 251):
إذا قلم أظافيره أو جز شعره ينبغي أن يدفن ذلك الظفر و الشعر المجزوز فإن مى به فلا بأس، و إن ألقاه في الكنيف أو المغتسل يكره ذلك؛ لأن ذلك يورث داءً.