021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
واپڈا ملازم کےلیے متعین کردہ یونٹوں کے علاوہ اضافی بجلی بلامعاوضہ استعمال کرناجائزنہیں ہے
62605اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک ادارہ واپڈا کے نام سے مشہورہے جوکہ ایک نیم سرکاری ادارہ ہے جس میں ملازمین کو ان کے عہدوں کے بقدر مراعات حاصل ہوتے ہیں مثلاً: میڈیکل الاؤنس،بچوں کی تعلیم وغیرہ، ان مراعاتوں میں بجلی کے فری یونٹس بھی دیئے جاتےہیں اورہر ایک شخص کو اس کے عہدے کے مطابق یونٹس ملتے ہیں، لیکن جتنے یونٹس ان کو ملتے ہیں وہ ایک ہفتے میں ہی صرف ہوجاتے ہیں یعنی فریج ،اے سی ،گیزر،ہیٹر وغیرہ سے اتنے یونٹس صرف ہوجاتے ہیں، بلکہ اکثر وبیشترفری یونٹوں سےاستعمال دس گنا سے بھی بڑھ جاتاہے اوریہ معمولی ملازم سے لیکر بائیس گریڈ آفیسرتک کے ملازمین کا یہی حال ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ میٹر ریڈر جب ماہانہ صرف شدہ یونٹوں کا بل تیار کرتاہے تو جو بندہ واپڈا کا ملازم ہوتاہے اس کی میٹر سے وہ اضافی یونٹس نہیں لکھتااورفری یونٹس ظاہر کرکے ان فروی یونٹومیں سے بھی چندصرف شدہ یونٹوں کا ایک بل تیارکرلیتاہے جو کہ آج کل کے 120تا200روپے بن جاتاہے، یہ سارا کام قانون دیکھ رہاہوتاہے ،واپڈا کے محکمے کو ہر چیز معلوم ہوتی ہے، مگر آج تک کسی ایک سے بھی قانونی طریقے پر بل کی صحیح ادائیگی کی وصولی نہیں ہوئی ،واپڈا کے اپنے اکاونٹس بنک میں ہوتے ہیں جس میں لوگ اپنے بل جمع کرواتے ہیں اورعام لوگوں کو اتناہی بل پے کرناپڑتاہے جتناآچکاہو،اگرچہ کسی پر زیادہ یونٹ ڈالے گئے ہوں، واپڈا کے اپنے گرڈسٹیشن میں کنٹرول روم ہوتاہے جس میں کسی علاقےکی مکمل صرف شدہ یونٹ کا ریکارڈ میٹروں میں محفوظ ہوتاہے، جتنے یونٹوں کا پیسہ ان کو مل جاتاہے ان کو وہ جدا کرلیتے ہیں اورباقی جن لوگوں نے زیادہ یونٹس چوری کی شکل میں ،میٹروںمیں دھوکہ کرنے کی صورت میں استعمال کی ہوتی ہے ان کا خسارہ یا تو واپڈا خوداٹھا تاہے لوڈ شیڈنگ کرواکر ،یا اگر 1000ہزار یونٹس تک ہو تو ہر شخص پر تقسیم کرکے اس کے ماہانہ بل میں ڈال دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اکثر عوام اپنے صرف شدہ یونٹوں سے زیادہ یونٹوں کا بل جمع کراتے ہیں، اسی طرح اس میں یہ معلوم کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ کن لوگوں نے ایک دوسرے کے بل کے پیسے جمع کرائے ہیں اورجن لوگوں نے تعلقات کی بنیاد پر بلوں میں غبن کی ہوتی ہے یا چوری سے بجلی استعمال کی ہوتی اس کی سزا ہرایک کو مل رہی ہوتی ہے، سوائے اس کی ذات کے ، اب مسئلہ یہ ہے کہ (1) کیاایسے لوگوں کے گھروں میں دعوت قبول کرناجائز ہے یانہیں؟ (2) اگر گھرکے کمانے والے اس فعل میں مبتلاہو اوراس کے ماتحت بالغ اولاد ہو جو مستحقِ زکوۃ ہوں ،اوران کے گھروں میں خاندانی نظام رائج ہویعنی سب مل کر رہتے ہوں تو اولاد کے لیے کیاحکم ہے ایسی بجلی کے استعمال کا جو واپڈا کے ملازمین اوران کے بچوں کے لیے ہوتی ہے ؟ (3) اگر اولاد کمانے کے قابل ہو اورمال دار بھی ہولیکن ایک گھرمیں سارے ایک ساتھ رہنے کا رواج ہو یا والدین نہ چاہتے ہو کہ ان کی اولاد ان سے جدا رہےتو ایسی صورت میں پھر واپڈا کے ملازمین کے لیے کیا حکم ہوگا؟ (4) ایسے رشتہ داروں کے گھرآنا جانارکھنا، صلہ رحمی قائم رکھنا جن کا گھر واپڈا کے ملازمین ہوں کیا حکم رکھتاہے؟ ان کی دعوت قبول کرنا اوران کا کھانا کھانا جائز ہوگا ؟ (5) ایسے گھرانے کےمکینوں کی نمازاورروزے وغیرہ کاکیا حکم ہوگا؟ جواس طرح کا پانی اورخوراک استعمال کرتےہوں؟ کیا نمازیں لوٹانی پڑیں گی؟ (6) اگر کسی گھرانے کا استعمال شدہ بجلی کئی سالوں سےغیر قانونی طریقے سے رائج ہو وہ اگر اس کا ازالہ کرنا چاہتے ہوں تو اس کی کیا صورت ہوگی ؟ مندرجہ بالابحث کی روشنی میں جیسا کہ بتایاگیا کہ محکمہ واپڈا ان یونٹوں کا وبال ہر خاص وعام پر ڈالتاہےتو ظاہر بات ہے کہ واپڈا کا ملازم ہر ایک کا مدیون ٹھہرااورکوئی متعین مالک نہ ہونے کی صورت میں واپڈا کا ملازم کس طرح ان دیون کا ازالہ کرے گا؟ (7) اگراس کی صورت اپنے حساب سے صدقہ کرنا ہوتو کیا واپڈا کا ملازم اپنی بالغ اولادکی تعلیمی اوردیگرضروریات ِزندگی پوری کرنے میں اپنا مال صدقہ کرسکتاہے، جبکہ اولاد فقیر ہو؟ یاکیا جتنا مال واپڈا کے ملازم نےپہلے کہیں صدقہ کررکھاہو وہ ان دیون میں شمار کرسکتاہے ؟ (8) اگرکسی کے پاس اتنا مال نہ ہوکہ وہ یہ دیون ادا کرسکے تو اسکے لیے کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واپڈا ملازم کےلیے متعین کردہ یونٹوں کے علاوہ اضافی بجلی بلامعاوضہ استعمال کرناجائزنہیں ہے، لہذا جتنی زیادہ بجلی استعمال ہوجائے اس کی قیمت واپڈا میں جمع کراناضروری ہے ۔ افسروں کی باہمی ملی بھگت اورمیٹرریڈرکے بل میں اضافی یونٹ نہ ڈالنے کی وجہ سےبھی اضافی یونٹ کا استعمال واپڈا ملازم کےلیے جائز نہیں ہوجاتا۔ واپڈا کےلیے ایک صارف کا بل دوسرے صارف پر ڈالنایامجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر خود ادارے پر ڈالنا درست نہیں ہے ۔ان تمہیدی باتوں کے بعد آپ کے سوالوں کے جوابات ترتیب واردرجِ ذیل ہیں : 1۔بجلی چوری کرنا بلاشبہ بڑا جرم ہے جس کی وجہ سےمتعلقہ شخص(واپڈا ملازم) پر توبہ اوراستغفار کرنااوراضافی یونٹوں کی رقم محکمہ میں جمع کراناضروری ہے ،مگر اس کی وجہ سے اس واپڈ ملازم کے گھر دعوت کھاناحرام نہیں ہوجاتا بشرطیکہ اس کی غالب آمدنی حلال ہو۔ (2)۔وہ اضافی یونٹوں میں اپنے حصے کے بقدر رقم محکمہ میں داخل کرالیاکریں۔ (3)۔اس کا وہی جواب ہے جو نمبر دو پر گزرا۔ (4)۔صلہ رحمی اورآناجانارکھنےاورغالب مال حلال ہونے کی صورت میں دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ،البتہ ان کو اس گناہ سے بچنےکی تلقین ضرورکرنی چاہیے ۔ (5)۔نمازاورروزے کی صحت اورعدم ِصحت کا تعلق اپنی شرائط کے ساتھ ہوتاہے، وہ اگرشرائط مسئولہ صورت میں موجود ہوں تونمازیں اورروزے صحیح ہوجائیں گے ، ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔البتہ حرام بجلی استعمال کرنے کی وجہ سےثواب میں کمی واقع ہوگی ۔ (6)۔اس کی تلافی کی صورت یہ ہےکہ صرف شدہ اضافی یونٹوں کے بقدر رقم محکمہ( واپڈا) میں جمع کرائی جائے ۔ (7)نہیں ،اولاد پر یہ رقم صدقہ نہیں ہوسکتی ،اس لیےکہ جب صاحبِ حق معلوم تو حق اس تک پہنچانا ضروری ہوتاہے اس صورت میں فقیرپرصدقہ کرنا کافی نہیں ۔ (8)۔استطاعت کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے دیتارہے۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية - (ج 43 / ص 320) أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام ، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية ، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل ، كذا في الينابيع . ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب ، وكذا أكل طعامهم ، كذا في الاختيار شرح المختار . الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 137) إذا كان غالب مال المهدي حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام و إن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال : إنه حلال لا ورثه أو استقرضه قال الحلواني : وكان الإمام أبو القاسم الحاكم يأخذ جوائز السلطان والحيلة فيه أن يشتري شيئا بمال مطلق ثم ينقده من أي مال شاء كذا رواه الثاني عن الإمام وعن الإمام أن المبتلى بطعام السلطان والظلمة يتحرى فإن وقع في قلبه حله : قبل وأكل و إلا : لا لقوله عليه الصلاة و السلام : [ استفت قلبك ] الحديث وجواب الإمام فيمن فيه ورع وصفاء قلب ينظر بنور الله تعالى ويدرك بالفراسة كذا في البزازية من الكراهة. وفی شرح الاشباہ للحموی :وفی الفصل الثالث عشر کتاب الکراھیۃ من الذخیرۃ سئل الفقیہ ابوجعفرعمن اکتسب مالہ من امرالسلطان وجمع المال من اخذ الغرمات المحرمات وغیرذلک ھل یحل لمن عرف ذلک ان یأکل من طعامہ احب الی فی دینہ ان لایأکل منہ ویسعہ حکما ان یأکلہ ان کان ذلک الطعام لم یکن فی ید المطعم غصبااورشوۃ انتھی وفی الخانیۃ من کتاب الحظروالاباحۃ امرأ ۃ زوجھا فی ارض الجوران اکلت من طعامہ ولم یکن عین ذلک غصبا فھی فی سعۃ من اکلہ وکذا لواشتری طعامااوکسوۃ من مال اصلہ لیس بطیب فھی فی سعۃ من تناول ذلک الطعام والثیاب ویکون الاثم علی الزوج انتھی . وفی الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 320) كتاب الحظر و الإباحة : ليس زماننا زمان اجتناب الشبهات كما فيه من الخانية و التجنيس. الموسوعة الفقهية - (ج 2 / ص 5209) 7 - اختلف الفقهاء في قبول جائزة السّلطان أو هديّته :وأمّا جائزة السّلطان الّذي لم يعرف بالجور فقال الفقيه أبو اللّيث : إنّ النّاس اختلفوا فأخذها ، فقال بعضهم : يجوز ما لم يعلم أنّه يعطيه من حرام ، قال محمّد بن الحسن : وبه نأخذ ما لم نعرف شيئاً حراماً بعينه ، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى وأصحابه. مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 261) وفي القهستاني وفيه إشارة إلى أنه لا يجب بالمال الحرام لكن لو حج به جاز؛ لأن المعاصي لاتمنع الطاعات فإذا أتى بها لا يقال إنها غير مقبولة والمتبادر أن هذه الأمور شرط عند خروج قافلة بلده فإن ملكها قبله فلا يأثم بصرفه إلى حيث شاء. المبسوط للسرخسي (10/ 171) لو أذن له ذو اليد في تناول طعامه وشرابه فأخبره ثقة أن هذا الطعام والشراب في يده غصب من فلان وذواليد يكذبه وهو متهم غير ثقة فإن تنزه عن تناوله كان أولى وإن لم يتنزه كان في سعة وفي الماء إذا لم يجد وضوءا غيره توضأ به ولم يتيمم لأن الشرع جعل القول قول ذي اليد فيما في يده وهذا بخلاف ما سبق لأن هناك المخبر إنما أخبر بملك الغير في المحل وخبره في هذا ليس بحجة وهناك أخبر بحرمة ثابتة في المحل لحق الشرع وخبر الواحد فيه حجة. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 341) لو صلى السنة في أرض مغصوبة كان آتيا بها مع ارتكاب المنهي عنه. اهـ.قلت: وأصل الجواب مصرح به في كافي النسفي حيث قال: لأن النهي في غيره، فلا ينفي مشروعيته كما لو توضأ بماء مغصوب أو استنجى بحجر مغصوب. قلت: والظاهر أنه أراد بالمشروعية الصحة، لكن يقال عليه: إن المقصود من السنة الثواب وهو مناف للنهي، بخلاف الفرض فإنه مع النهي يحصل به سقوط المطالبة، كمن توضأ بماء مغصوب فإنه يسقط به الفرض وإن أثم، بخلاف ما إذا جدد به الوضوء فالظاهر أنه وإن صح لم يكن له ثواب. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 211) عن مختارات النوازل الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب اهـ قوله: "مع الكراهة" أي التحريمية ذكره السيد وفي السراج والقهستاني تكره الصلاة في الثوب الحرير والثوب المغصوب وإن صحت والثواب إلى الله تعالى فتح القدير للكمال ابن الهمام (9/ 321) قال (وعلى الغاصب رد العين المغصوبة) معناه ما دام قائما لقوله - عليه الصلاة والسلام - «على اليد ما أخذت حتى ترد» وقال - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا، فإن أخذه فليرده عليه» ولأن اليد حق مقصود وقد فوتها عليه فيجب إعادتها بالرد إليه، وهو الموجب الأصلي على ما قالوا. المبسوط للسرخسي (11/ 49) اما الكتاب فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقال تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا} [النساء: 10] وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» وقال - صلى الله عليه وسلم - في خطبته: «ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا» (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب