محترم جناب مفتی صاحب،
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں:
ایک شخص شادی کرتے وقت پچاس ہزار روپے (50,000) مہر کے طور پر طے کرتا ہے۔ شادی کے بعد وہ سونے کا ایک سیٹ خریدتا ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اگر تم چاہو تو مہر کے بدلے یہ سیٹ لے لو۔ اس کی بیوی خوشی خوشی راضی ہو جاتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور ایسے کرنے سے کیا مہر ادا ہوجائے گا یا اسے الگ سے پچاس ہزار دینا ضروری ہے؟
براہ مہربانی جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بیوی کی رضامندی سے مہر میں تبدیلی کرنا جائز ہے، لہذا یہ سیٹ دینے سے مہر ادا ہو جائے گا، الگ سے پچاس ہزار دینے کی ضرورت نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی: الصلح من الجانبين جميعا في معنى البيع، فكان بدل الصلح في معنى الثمن. (بدائع الصنائع، 6/590، المکتبۃ التوفیقیۃ)
ذکر فی الفتاوی الھندیۃ: رجل تزوج امرأة على خادم ثم صالحها على شاة بعينها جاز... فإذا تزوجها على كر حنطة ثم صالحها من ذلك على كر شعير بعينه فهو جائز، وإن كان الشعير بغير عينه، إن كان الشعير مؤجلا لا يجوز، وإن كان حالا إن نقد في المجلس فالصلح صحيح، على جواب الاستحسان أو على إحدى الروايتين. وإن تفرقا قبل القبض، بطل الصلح. (الفتاوی الھندیۃ: 1/74)
قال الشیخ وھبۃ الزحیلی رحمہ اللہ تعالی: " وإن كان المدعى به ديناً سوى الدراهم والدنانير: فإن كان مكيلاً بأن كان مد حنطة مثلاً، فصالح منه فله حالتان: إما أن يصالح على جنسه أو على خلاف جنسه... إن صالح على خلاف جنس حقه: فإن كان بدل الصلح من الدراهم والدنانير جاز الصلح، ويشترط القبض حتى لا يفترق المتعاقدان عن دين بدين." (الفقہ الإسلامی وأدلتہ: 6/183، دار الفکر)
قال شیخ الإسلام مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ ورعاہ: "لکن الأوراق النقدیۃ فقد وقع فیہ خلاف بین العلماء المعاصرین، وإن کثیرا من علماء البلاد العربیۃ جعلوھا فی حکم الذھب سواء بسواء، لکن خالفتھم فی رسالتی "أحکام الأوراق النقدیۃ". وذکرت أنھا لیست قائمۃ مقام الذھب فی جمیع الأمور، ولذلك یجوز عندی أن یشتری الذهب أو الفضة بالنقود، ویجوز ایضا أن یشتری الذهب نسیئة بالأوراق النقدية، ولکن یجب أن یکون تقابض أحد البدلین فی المجلس إذا کان ذهبا خالصا، وأن یعرف الأجل عند العقد. وقد قبل ھذا الموقف معظم علماء الھند وکثیر من باکستان." (فتاوی عثمانی: 3/159)