021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مبیع خریدتےوقت مشتری کےہاتھ سےضائع ہوگئی
62891خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص موبائل کے دکان پر گیا،اس نے دکاندار سے کہا کہ فلاں موبائل دکھاؤ۔دکاندار نے موبائل پکڑایا۔مذکورہ شخص موبائل کو دیکھتا رہا کہ اتفاق سے اس کے ہاتھ سے موبائل گرگیا اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ موبائل کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی قیمت کا ذمہ دار خریدنے والا شخص ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ شخص موبائل خریدنے پر راضی نہیں ہوا تھا،بلکہ دیکھنے کے بعد اس نے رضا یا عدم رضا کا فیصلہ کرنا تھا،لہذا موبائل اس کے پاس امانت تھا جس کی وجہ سے اس پر ضمان نہیں آئے گا۔مگر یہ حکم اس صورت میں ہے کہ مذکورہ شخص نے موبائل محتاط طریقے سے استعمال کرکے دیکھا ہو۔اگر اس نے استعمال کرنے میں احتیاط نہیں برتی اور اس کے ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا تو اس پر ضمان آئے گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:" وبيان ذلك :أن المساوم إنما يلزمه للضمان إذا رضي بأخذه بالثمن المسمى على وجه الشراء، فإذا سمى الثمن البائع، وتسلم المساوم الثوب على وجه الشراء، يكون راضيا بذلك، كما أنه إذا سمى هو الثمن،وسلم البائع يكون راضيا بذلك، فكأن التسمية صدرت منهما معا، بخلاف ما إذا أخذه على وجه النظر؛ لأنه لا يكون ذلك رضا بالشراء بالثمن المسمى… ثم قال في القنية ط: أخذ منه ثوبا وقال: إن رضيته اشتريته، فضاع فلا شيء عليه. وإن قال: إن رضيته أخذته بعشرة ،فعليه قيمته. ولو قال صاحب الثوب: هو بعشرة، فقال المساوم: هاته حتى أنظر إليه ،وقبضه على ذلك، وضاع لا يلزمه شيء. اهـ. قلت: ووجهه أنه في الأول لم يذكر الثمن من أحد الطرفين فلم يصح." (رد المحتار:4/573،دار الفکر،بیروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب