1. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز والی روایت سے جہیز کا ثبوت ہوسکتا ہے یا نہیں؟
2. نیز جب لڑکی والے جہیز دینے پر مصر ہوں تو ایسی صورت میں فسادِ معاشرہ کی وجہ سے جہیز نہ لینے کی شرط لگانا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1. روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے دی ہوئی مہر کی رقم سے گھریلو استعمال کی چند اشیاء دی تھیں،اس لیے اس کو جہیز کہنا درست نہیں ۔جہیز کی حقیقت یہ ہے کہ یہ والدین کی طرف سے بیٹی کےلیے ایک تحفہ ہے،بشرطیکہ رسم و رواج اور نمود و نمائش سے پاک ہو،لیکن آج کل جس طرح اِس عمل میں غیر شرعی امور انجام دیے جاتے ہیں ،مثلا:جہیز کو نکاح کا لازمی جز ءقرار دینا،لڑکے والوں کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ اِس کا مطالبہ کرنا،جہیز کے سامان کی نمائش،والدین کا اس کےلیے بھاری قرضے لینا وغیرہ،تو ان سب مفاسد کی وجہ سے یہ عمل ناجائز بن جاتا ہے۔
2. اگر مذکورہ بالا مفاسد کے ارتکاب کا اندیشہ ہو تو اس رسم کوختم کرنے کےلیے جہیز نہ لینے کی شرط لگانا ضروری ہے۔البتہ اگر والدین بیٹی کو کچھ رقم دینا چاہیں یا اپنی مالی استطاعت کے مطابق اور بدعات و منکرات سے بچتے ہوئے گھریلو استعمال کا کچھ سامان خرید کر دینا چاہیں تو عینِ نکاح و رخصتی کے موقع سے ہٹ کر بعد میں یا پہلے لے لینا چاہیے ۔
حوالہ جات
فی المعجم الکبیر،قال علی رضی اللہ عنہ فی روایۃ طویلۃ:” فقعدت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله قد علمت قدمي في الإسلام ومناصحتي، وإني وإني، قال: «وما ذاك يا علي؟» قلت: تزوجني فاطمة، قال: «وما عندك» ، قلت: فرسي وبدني، يعني درعي، قال: «أما فرسك، فلا بد لك منه، وأما درعك فبعها» ، فبعتها بأربع مائة وثمانين فأتيت بها النبي صلى الله عليه وسلم فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة، فقال: " يا بلال، ابغنا بها طيبا، ومرهم أن يجهزوها، فجعل لها سريرا مشرطا بالشريط، ووسادة من أدم، حشوها ليف، وملأ البيت كثيبا، يعني رملا…
( المعجم الكبير للطبراني ،ح:1021 )
وفی المستدرک: عن علي رضي الله عنه قال : جهز رسول الله صلى الله عليه و سلم فاطمة رضي الله عنها في خميل و قربة و وسادة من أدم حشوها ليف ). المستدرک علی الصحیحین،ح: 2755)
واللہ سبحانہ و تعالی أعلم