سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زاہد کے نانا کی وراثت تقسیم ہوئی،ایک مکان نانا کا جس میں زاہد کی خالہ رہتی تھی زاہد نے تمام ورثہ کو کہا کہ جس مکان میں خالہ رہتی ہیں اس کو تقسیم نہ کریں،خالہ کو رہنے دیں،زاہد کی کچھ ورثہ عزت کرتے ہیں اور کچھ ڈرتے ہیں،اس لیے زاہد کی بات پر سب خاموش ہوگئے۔
تقریبا آٹھ سال بعد خالہ نے وہ مکان کرایہ پر دے دیا اور خود دوسرے مکان میں چلی گئی جو ان کا اپنا تھا،یہ صورت حال دیکھ کر ورثہ نے کہا کہ ہمیں حصہ ملنا چاہیے،کیونکہ خالہ اپنے گھر چلی گئی ہیں،اس صورت حال میں زاہد پریشان ہے کہ کیا کرے آپ سے گزارش ہے کہ راہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نانا کا یہ مکان تمام ورثہ کی مشترکہ ملکیت تھا اور اب بھی ہے،جس طرح انتقال کے وقت نانا کی ملکیت میں موجود دیگر چیزیں وراثت میں تقسیم کی اسی طرح اس گھرکی تقسیم بھی ضروری تھی،اس لیے اب زاہد کے ذمے لازم ہے کہ وہ اس مکان کو بیچ کر اس کی قیمت کو اس کے نانا کے انتقال کے وقت موجود ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردے اور جب تک مکان فروخت نہ ہو اس وقت تک اس مکان سے حاصل ہونے والا کرایہ بھی صرف خالہ کا حق نہیں،بلکہ تمام ورثہ کو اس میں سے حصہ ملے گا۔
حوالہ جات
"دررالحکام شرح مجلة الاحکام "(3/ 30):
"لو آجر احد الشرکین المال المشترک لآخر وقبض الاجرة یعطی الآخر حصتہ منھا ویرد ھا الیہ لوآجر احد الشریکین المال المشترک لآخر بلااذن الشریک وقبض الاجرة فیعطی شریکہ الآخر حصة من بدل الایجار ویردھا الیہ ویشارک الشریک الآخر المؤجر فی بدل الایجار بنسبة حصتہ فی المال المشترک".