السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
محمد اسلام ولد محمد یوسف رضائے الٰہی سے 2 شوال 1439ھ، جون 2018ء کو انتقال فرماگئے۔ ان کی زوجہ پہلے ہی انتقال فرماچکی ہے۔ اپنی اولاد نہیں ہیں، ایک لے پالک بیٹی ہے۔ ایک بہن خدیجہ 2010ء میں انتقال فرماچکی ہے، اس بہن کے 6 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ دوسری بہن رحمت بی 2014ء میں انتقال فرماچکی ہے، اس بہن کے 7 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ تیسری بہن نرگس جو ماں سے سگی ہے لیکن باپ یعنی محمد یوسف صاحب کی اولاد نہیں ہے، حیات ہے۔
محمد اسلام صاحب کے ترکہ میں کچھ پیسے ہیں جن کو تقسیم کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پیسے مذکورہ بالا ورثاء کے درمیان کس طرح تقسیم کی جائیں گی؟
وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ مرحوم محمد اسلام کا کوئی بھائی نہیں تھا، نیز ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی ان کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ مرحومہ خدیجہ اور مرحومہ رحمت بی، مرحوم محمد اسلام کی سگی بہنیں تھیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ مرحوم محمد اسلام کے ورثاء میں اس وقت ایک (1) ماں شریک بہن، تیرہ (13) بھانجے اور آٹھ (8) بھانجیاں حیات ہیں۔
ان ورثاء کے درمیان مرحوم محمد اسلام صاحب کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ کو دو سو چار (204) حصوں میں تقسیم کرکے چونتیس (34) حصے محمد اسلام کی ماں شریک بہن (نرگس) کو دئیے جائیں۔ باقی ایک سو ستر (170) حصے بھانجوں اور بھانجیوں میں اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ تیرہ (13) بھانجوں میں سے ہر ایک بھانجے کو دس، دس (10،10) حصے دیئے جائیں اور آٹھ بھانجیوں میں سے ہر ایک بھانجی کو پانچ، پانچ (5،5) حصے دئیے جائیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں اصل مسئلہ چھ (6) بنے گا، چھ میں سے چھٹا یعنی 1 حصہ ماں شریک بہن کو دیا گیا۔ باقی 5 حصے 13 بھانجوں اور 8 بھانجیوں میں اس طور پر تقسیم کرنے تھے کہ ہر بھانجے کو بھانجی کے مقابلے میں دوگنا حصہ دینا تھا، لیکن چونکہ 5 حصے 34 افراد پر صحیح صحیح تقسیم نہیں ہوسکتے تھے، جس کی وجہ سے اس مسئلے میں "کسر" واقع ہوا۔ اور چونکہ ذوی الارحام کے عددِ رؤوس (34) اور ان کے حصوں (5) کے درمیان "تباین" کی نسبت تھی (کیونکہ کل عددِ رؤوس 34 ہیں۔ 8 بھانجیاں، اور 13 بھانجے جن میں سے ہر ایک بھانجا دو بھانجیوں کے برابر ہے، اس طرح سے بھانجوں کی تعداد 26 ہوگئی، ان کے ساتھ 8 بھانجیوں کو ملایا گیا تو ذوی الارحام کی تعداد 34 ہوگئی) اس لیے مسئلے کی "تصحیح" کے لیے کل عددِ رؤوس یعنی 34 کو اصل مسئلے یعنی 6 میں ضرب دیا، جس کا جواب 204 آیا۔ پھر کل عددِ رؤوس یعنی 34 کو ہر فریق کے حصوں میں ضرب دیا ، ماں شریک بہن کے حصے یعنی ایک سے 34 کو ضرب دیا تو 204 میں سے اس کو 34 حصے مل گئے، اور ذوی الارحام یعنی بھانجوں اور بھانجیوں کے حصے یعنی 5 سے کل عددِ رؤوس یعنی 34 کو ضرب دیا تو جواب 170 آگیا جس کو للذکر مثل حظ الأنثیین کے قاعدے کے مطابق تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک بھانجے کو 10، 10 حصے اور ہر ایک بھانجی کو 5، 5 حصے دیدئیے گئے۔
تقسیم کا نقشہ حسبِ ذیل ہے-:
مسئلہ:6 x 34 = 204 مضروب:34
میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــۤۤۤ
ماں شریک بہن (نرگس) 13 بھانجے اور 8 بھانجیاں
ذوی الفرض ذوی الارحام
1x34 5x 34
34 170
(فی بھانجا 10،10 حصے، اور فی بھانجی 5،5 حصے)
16.66% 83.33%
(فی بھانجا 4.90%، فی بھانجی2.45%)
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ}
(النساء:12)
السراجی فی المیراث: ص:16:
أحوال أولاد الأم: وأما لأولاد الأم فأحوال ثلاث: السدس للواحد…… الخ
السراجی فی المیراث: ص:86،85
وذوو الأرحام أصناف أربعة:…… الصنف الثالث: ینتمی إلی أبوی المیت، وهم أولاد الأخوات وبنات الإخوة وبنو الإخوة لأم.
وفی صفحة:100:
فصل فی الصنف الثالث: الحکم فیهم کالحکم فی الصنف الأول، أعنی: أولاهم بالمیراث
أقربهم إلی المیت…… وإن استووا فی القرب ولیس فیهم ولد عصبة، أو کان کلهم أولاد العصبات، أو کان بعضهم أولاد العصبات وبعضهم أولاد أصحاب الفرائض، فأبویوسف رحمه الله تعالی یعتبر الأقوی، ومحمد رحمه الله تعالی یقسم المال علی الإخوة والأخوات مع اعتبار عدد الفروع والجهات فی الأصول، فما أصاب کل فریق یقسم بین فروعهم کما فی الصنف الأول………………………………………………….الخ
وفی صفحة (90-89):
فصل فی الصنف الأول:……………. وإن استوت درجاتهم ولم یکن فیهم ولد الوارث، أوکان کلهم یدلون بوارث، فعند أبی یوسف والحسن بن زیاد رحمهما الله یعتبر أبدان الفروع ویقسم المال علیهم، سواء اتفقت صفة الأصول فی الذکورة والأنوثة أواختلفت، ومحمد رحمه الله تعالی یعتبر أبدان الفروع إن اتفقت صفة الأصول موافقاً لهما، ویعتبر الأصول إن اختلفت صفاتهم ویعطی الفروع میراث الأصول مخالفاً لهما، کما إذا ترك ابن بنت وبنت بنت، عندهما یکون المال بینهما للذکر مثل حظ الأنثیین باعتبار الأبدان، وعند محمد رحمه الله کذلك؛ لأن صفة الأصول متفقة……………………………………...…الخ