ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی
سوال
پلاٹ بسا اوقات تجارت کی غرض سے خریدا جاتا ہے اور بسا اوقات مال کی حفاظت اور ضرورت پر خرچ کرنے کی نیت سے۔ تو کیا ان دونوں صورتوں میں اس پر زکوۃ واجب ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس اصول کے پیشِ نظر تجارت (آگے بیچنے) کی نیت سے خریدے ہوئے پلاٹ میں تو زکوۃ واجب ہے۔ البتہ جو پلاٹ مال کی حفاظت اور ضرورت پر خرچ کرنے کی واضح رہے کہ پلاٹ اور اس جیسی دیگر اشیاء پر زکوۃ صرف اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں خالص تجارت (آگے بیچنے) کی غرض سے خریدا جائے، یعنی اپنی ملکیت میں لاتے وقت تجارت کی نیت کی ہو اور بعد میں بھی یہ نیت برقرار رہے۔
نیت سے خریدا جائے اس میں اگر خریداری کے وقت صرف آگے بیچنے کی حتمی نیت نہ ہو، بلکہ محض لے ڈالنے کے لیے خریدا اور دل میں یہ خیال بھی تھا کہ اگر کچھ نفع بخش ہوا تو اسے فروخت کردیں گے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ لیکن چونکہ بسا اوقات ان دونوں نیتوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے احتیاطاً ایسے پلاٹ کی زکوۃ بھی ادا کیا کریں تو بہتر ہے۔ (کذا فی فتاویٰ عثمانی:2/41)
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 273):
وشرط مقارنتها لعقد التجارة، وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض، ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه.