03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاکِ شفاء کا حکم
63747جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

سوال:مدینہ منورہ میں کچھ لوگ مٹی فروخت کرتے ہیں،جسے خاک شفاء کہتے ہیں،جبکہ مسجد نبوی میں دوران بیان مسئلہ پوچھا تو مولانا صاحب نے جو غالبا مکی صاحب تھے بتایا کہ خاک شفاء کچھ بھی نہیں ہے،بلکہ لوگوں نے مشہور کررکھی ہے،اس کا شرعی حکم بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حقیقت میں اس بات کی اصل صحیح بخاری اور مسلم کی وہ روایت ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کو ان الفاظ سے دم کیا کرتے تھے: «بسم اللہ تربة أرضنا، وريقة بعضنا، يشفى سقيمنا، بإذن ربنا» علامہ نووی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک"تربة ارضنا "میں "ارض" کا مصداق پورا کرہ ارض ہے،خاص مدینہ کی زمین کی مٹی مراد نہیں،جبکہ بعض کے نزدیک اس کا مصداق خاص مدینہ کی مٹی ہے۔ لہذا خاک شفاء کے متبرک ہونے کو بالکل بے اصل نہیں قرار دیا جاسکتا،البتہ اس میں غلو سے بھی احتراز ضروری ہے،کیونکہ اصل شفاء دینے والی ذات اللہ تعالی کی ہے،وہ چاہے تو مٹی کو شفاء کا سبب بنادے اور چاہے تو اعلی سے اعلی دوا کو بالکل بے اثر کردے۔
حوالہ جات
"صحيح البخاري" (7/ 133): عن عائشة، قالت: كان النبي صلىﷲ عليه وسلم يقول في الرقية: «تربة أرضنا، وريقة بعضنا، يشفى سقيمنا، بإذن ربنا» . "صحيح مسلم" (4/ 1724): عن عائشة، أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم كان إذا اشتكى الإنسان الشيء منه، أو كانت به قرحة أو جرح، قال: النبي صلى ﷲ عليه وسلم بإصبعه هكذا، ووضع سفيان سبابته بالأرض، ثم رفعها «باسم ﷲ، تربة أرضنا، بريقة بعضنا، ليشفى به سقيمنا، بإذن ربنا» قال ابن أبي شيبة: «يشفى» وقال زهير «ليشفى سقيمنا». "شرح النووي على مسلم" (14/ 184): "قال جمهور العلماء المراد بأرضنا هنا جملة الأرض وقيل أرض المدينة خاصة لبركتها والريقة أقل من الريق ومعنى الحديث أنه يأخذ من ريق نفسه على أصبعه السبابة ثم يضعها على التراب فيعلق بها منه شيء فيمسح به على الموضع الجريح أو العليل ويقول هذا الكلام في حال المسح والله أعلم".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب