سوال: رمضان کے روزے میں اگر کسی شخص نے سحری کی اور روزہ کی نیت میں اس کو کامل یقین نہیں تھا کہ کی ہے یا نہیں اور پھر آٹھ بجے کے قریب اس نے یہ سوچ کر کھایا کہ شاید اس نے نیت نہیں کی تھی،اب اس صورت میں اس پر اس روزے کی صرف قضاء ہوگی یا کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا؟
نوٹ: سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ سحری تو اس نے روزہ رکھنے کی نیت سے کی تھی،لیکن بعد میں صبح صادق سے پہلے نیت بدل گئی اور روزہ نہ رکھنے کا ارادہ کرلیا،اس کے بعد وہ سوگیا اور اٹھنے کے بعد کھا پی لیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ سحری کے بعد صبح صادق سے پہلے سائل کی نیت بدل گئی تھی اور اس نے روزہ نہ رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا،اس لیے اس کے ذمے صرف قضاء لازم ہے،کفارہ نہیں ۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 413):
"ثم انما یکفر إن نوى ليلا، ولم يكن مكرها ولم يطرأ مسقط كمرض وحيض".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله: إن نوى ليلا) أي بنية معينة لما مر من خلاف الشافعي فيهما فكان شبهة لسقوط الكفارة .....
(قوله: ولم يطرأ) أي بعد إفطاره عمدا مقيما ناويا ليلا فتجب الكفارة لولا المسقط".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 97):
" وأما وجوب الكفارة فيتعلق بإفساد مخصوص وهو الإفطار الكامل بوجود الأكل أو الشرب أو الجماع صورة ومعنى متعمدا من غير عذر مبيح ولا مرخص ولا شبهة الإباحة".
"الفقه على المذاهب الأربعة" (1/ 496):
ولا بد من النية لكل يوم من رمضان، والتسحر نية، إلا أن ينوي معه عدم الصيام ولو نوى الصيام في أول الليل، ثم رجع عن نيته قبل طلوع الفجر صح رجوعه في كل أنواع الصيام".