021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رؤیت ہلال میں قمری حسابات کا اعتبار
60920روزے کا بیانرمضان کا چاند دیکھنے اور اختلاف مطالع کا بیان

سوال

رؤیت ہلال میں قمری حسابات کا اعتبار ہے یا نہیں، مثلاً حساب کے مطابق جب یہ پیشن گوئی ہو کہ 14 تاریخ کو چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اس کے بعد چاند نظر نہیں آتا تو کمیٹی عدم رؤیت کی وجہ سے فقط حساب قمری کی بناء پر رؤیت کا اعلان نہیں کرتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب قمری کا اعتبار نہیں کیا جارہا۔ اسی طرح جب حساب قمری کی بناء پر یہ کہا جائے کہ فلاں تاریخ کو رؤیت ممکن نہیں اور کسی علاقے میں رؤیت ہلال ہو جائے تو حساب قمری کی بناء پر اس کو رد کرنا کیسا ہے؟ اگر اس بناء پر رد کیا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب قمری کا اعتبار کیا جارہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

رؤیت ہلال کے مسئلے میں شریعت نے چاند کے قابل رؤیت ہونے اور عام آنکھوں سے نظر آنے پر مدار رکھاہے، البتہ ریاضی اور سائنسی حسابات کو بطور تایید استعمال کرنے سے منع بھی نہیں فرمایا۔ چنانچہ حسابات کے ذریعہ یہ پتا لگانا کہ چاند افق پر موجود ہے یا پیدا ہو چکا ہے یا فلاں جگہ پر ہے اور ان کی بنیاد پر گواہوں پر جرح کرنے میں شرعًا کوئی قباحت نہیں۔ لہذا پہلی صورت میں کمیٹی کا محض حسابات پر فیصلہ نہ کرنا بلکہ چاند کی رؤیت کا انتظار کرنا شریعت کے عین مطابق ہوگا اور دوسری صورت میں رؤیت کا امکان نہ ہونے کے باوجود اگر کوئی چاند دیکھنے کا دعوی کرتا ہے، تو ایسے شخص کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر حسابات کی رو میں چاند نظر آنا انتہائی مشکل ہو تو گواہوں پر زیادہ جرح کی جائے گی تاکہ دھوکے کا احتمال ختم ہو جائے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی: "فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ" (البقرة: ١٠٥) عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ، فإن غمي علیکم فأکملوا العدد." متفق علیہ واللفظ لمسلم. (الصحیح لمسلم :۲/٧٦٢) قال العلامة ابن عابدین: " البينة إذا قامت على خلاف المشهور المتواتر لا تقبل ... لأنه يلزم تكذيب الثابت بالضرورة والضروريات مما لا يدخلها الشك، وكذلك الشهادة التي يكذبها الحس لا تقبل." (العقود الدریة في تنقیح الفتاوی الحامدیة: ۱/٣٣٧) قال العلامة ابن حجر الهيتمي: " ووقع تردد لهؤلاء وغيرهم فيما لو دل الحساب على كذب الشاهد بالرؤية والذي يتجه منه أن الحساب إن اتفق أهله على أن مقدماته قطعية وكان المخبرون منهم بذلك عدد التواتر ردت الشهادة وإلا فلا." قال العلامة ابن عابدين: "في فتاوى الشهاب الرملي الكبير الشافعي: سئل عن قول السبكي لو شهدت بينة برؤية الهلال ليلة الثلاثين من الشهر وقال الحساب بعدم إمكان الرؤية تلك الليلة عمل بقول أهل الحساب؛ لأن الحساب قطعي والشهادة ظنية." (رد المحتار: ۲/٣٨٧) قال الشیخ مفتی محمد تقی حفظہ اللہ تعالی:"فتبین مما ذکرنا أن الذین ردوا قول السبکي ؒ إنما فعلوا ذلك علی أساس أن الحساب مبني علی المقدمات العقلیة البحتة، والحقیقة أنہ مبني علی الاستقراء، والمشاھدات، والتجارب الحسیة التی أصبحت کالبدھیات، فاستخدام ھذا الحساب لأجل التثبت في الشھادة لا یمنع منہ نص، ولا ینطبق علیہ ما قالہ الفقھاء المتقدمون من عدم اعتبار الحساب فی إثبات الھلال." (بحوث فی قضا یا فقھیة معاصرة: ۲/٢٤٤)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب