ہمارے علاقہ میں سرمایہ دار لوگ کھاد کی بوریا ں خرید کر اپنے گودام میں رکھ دیتے ہیں، اور جب سیزن میں کسانوں کو کھاد کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں کہتے ہیں کہ تم ہم سے کھا د ادھا ر لے لو اور چھ ماہ بعد قیمت ادا کر دینا ۔ اس طرح یہ لوگ ہزار (۱۰۰۰) روپے کی بوری پندرہ سو (۱۵۰۰) میں بیچ دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کاروبار کرنا جائز ہے ؟ نیز منافع کمانے کی کوئی شرعی حد متعین ہے ، یا جتنا بھی نفع لیا جا سکتا ہو جائز ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر معاملہ کے شروع میں ہی یہ گودام والے کسانوں کو قیمت بتا دیتے ہیں اور اس کی ادائیگی کی مدت بھی متعین کر دیتے ہیں، پھر دونوں فریقین کی رضامندی سے معاملہ طے ہو جاتا ہے تو اس طرح معاملہ کرنا درست ہے،کیونکہ ادھار بیچنے میں قیمت زیادہ رکھنا جائز ہے۔
شریعت مطہرہ نے منافع کمانے کی کوئی لگی بندی حد مقرر نہیں کی ہے، لیکن اتنا نفع لینا جو کہ "غبن فاحش" میں آتا ہو ، خلاف مروّت ہے۔(غبن فاحش سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی عام طور پر بازار میں جو زیادہ سے زیادہ قیمت ہے،کوئی دوکاندار اس قیمت سے بھی زیادہ وصول کرے ۔ یہ ناپسندیدہ کام ہے اگرچہ یہ خرید و فروخت صحیح ہو گی)
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (13/ 7)
"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد"
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 58)
"لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 124)
لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 142)
"الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا، فاعتبر مالا في المرابحة احترازا عن شبهة الخيانة"
فتاوی عالمگیری (3/161)
"من اشتری شیئا واغلی فی ثمنہ فباعہ مرابحۃ علی ذالک جاز۔۔۔ الخ"