میرا کزن ایک کمپنی میں کام کرتا ہے ، وہ کمپنی کے پراڈکٹ کے لئے خریدار لاتا ہےاور پھر کمپنی اور خریدار دونوں سے اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔ کیا اس کے لئے ایسا کرنا صحیح ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کمپنی نے آپ کے کزن کو اسی کام کے لئے ملازمت پر رکھا ہےکہ وہ کمپنی کے پراڈکٹ کے لئے خریدار کو تیار کرے اور کمپنی اسے اس کام کے لئے تنخواہ دیتی ہے ،تو اس صورت میں اس کے لئے خریدار یا کمپنی سے کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
اور اگر یہ ملازم کمپنی میں کوئی اورڈیوٹی کرتا ہے،لیکن اپنے اضافی اوقات میں کمپنی کی اجازت سے کمپنی کا پراڈکٹ بکواتا ہے اور اس کے لئے گاہک تیار کرتا ہے تو اس صورت میں اس کے لئے عرف کے مطابق بائع(کمپنی)یا مشتری(خریدار) یا دونوں سے کمیشن وصول کرنا جائز ہے۔
حوالہ جات
حاشية رد المحتار - (ج 6 / ص 348)
وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الاصل فاسدا لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 231)
إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري لأنه العاقد حقيقة وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه أو من المشتري أخذت منه أو من الاثنين أخذت منهما
الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 69)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية