سوال:اگر کوئی نماز میں تاخیر سے پہنچے اور پچھلی صف میں اکیلا کھڑا ہو جائے تو یہ جائز ہے ؟ فقہ کی کتب میں جو مسئلہ لکھا ہے کہ اگلی صف سے کسی نمازی کو پیچھے لے آئے ،یہ ضروری ہے یا نہیں؟؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کوئی شخص جماعت میں ایسے وقت آکر شریک ہوکہ اگلی صف مکمل ہوچکی ہو ،تو اسے چاہئے کہ وہ امام کے رکوع میں جانے تک کسی اور نمازی کے آنے کا انتظار کرے، اگر کوئی اور نمازی آجائے تو اس کو اپنے ساتھ کھڑا کر لے ورنہ اگلی صف میں سے کسی آدمی کو نرمی سے پیچھے کی طرف کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے تاکہ اکیلے کھڑا ہونے کی خرابی لازم نہ آئے۔
لیکن آج کل چونکہ جہالت عام ہے، اگر اگلی صف سے کسی کو کھینچا گیا تو غالب گمان یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے گا جس سے اس کی نماز خراب ہوجائے ، اس لئے آج کل نما ز میں کسی کو پیچھے کھینچنا مناسب نہیں ہے بلکہ مجبوری میں اکیلے ہی پچھلی صف میں کھڑا ہوجائے۔
حوالہ جات
رد المحتار - (ج 4 / ص 267)
"قال عليه الصلاة والسلام " { توسطوا الإمام وسدوا الخلل } " ومتى استوى جانباه يقوم عن يمين الإمام إن أمكنه وإن وجد في الصف فرجة سدها وإلا انتظر حتى يجيء آخر فيقفان خلفه ، وإن لم يجئ حتى ركع الإمام يختار أعلم الناس بهذه المسألة فيجذبه ويقفان خلفه ، ولو لم يجد عالما يقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورة ، ولو وقف منفردا بغير عذر تصح صلاته عندنا خلافا لأحمد"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 2 / ص 446)
"وفي الظهيرية: ولو جاء والصف متصل انتظر حتى يجئ الآخر فإن خاف فوت الركعة جذب واحدا من الصف إن علم أنه لا يؤذيه، وإن اقتدى به خلف الصفوف جاز لما روي أن أبا بكرة قام خلف الصف فدب راكعا حتى التحق بالصف، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يا أبا بكرة زادك الله حرصا في الدين... وفي القنية: والقيام وحده أولى في زماننا لغلبة الجهل على العوام"