021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر نفع لینا
61571سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

سوال:زید کے پاس ایک لاکھ روپے ضرورت سے زائد تھے۔اس نے اپنے دوست بکرکو یہ کہ کر دیئے کہ میرے پاس تو ویسے پڑے ہیں آپ اس کو استعمال کرلو جب تک مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔کبھی کچھ نفع ہو تو ہمیں بھی دےدینا۔بکر نے وہ رقم اپنےپہلے سے موجود کاروبار میں لگا لی۔اب بکر کبھی کبھی تھوڑے بہت پیسے زید کو نفع کے طور پر دے دیتا ہے۔ کیا زید کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اگرزیدنقصان میں شریک نہیں تو اس کی دی ہوئی رقم قرض ہےاور بکر کی طرف سے ملنے والی رقم اس قرض پر آنے والا نفع ہے، چونکہ زید کی طرف سے اس کا مطالبہ بھی تھا اوربظاہر مقاصد میں بھی شامل تھا، اس لیے یہ نفع سود ہے۔البتہ اگر زید کی طرف سے کسی قسم کے نفع کا مطالبہ نہ پایا جائے بلکہ محض تعاون کے طور پر قرض دےاور بعد میں قرض لوٹاتے وقت بکر اپنی خوشی سے قرض کی رقم سے بڑھا کر کچھ رقم دے تو لینا جائز ہو گا۔ اگر زید نے باقاعدہ نفع میں شریک ہونا ہے تو اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ قرض دینے کی بجائے شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے زید بکر کے ساتھ باقاعدہ شرکت کا عقد کر کے نفع نقصان دونوںمیں شریک ہو جائےاور نفع کا فیصدی تناسب بھی ہر ایک کے لیےواضح طور پر طے کیا جائے،جبکہ نقصان کا تناسب خود بخود سرمایہ کے تناسب سے ہی طے ہوتا ہے اس میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
(رد المحتار) (5/ 166) (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: وما في الجواهر يفيد توفيقا آخر بحمل ما في المعتبرات على غير المشروط، وما مر على المشروط، وهو أولى من إبقاء التنافي. ويؤيده ما ذكروه فيما لو أهدى المستقرض للمقرض إن كانت بشرط كره وإلا فلا تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 29) لأنه روي أن كل قرض جر منفعة فهو ربا، وتأويل هذا عندنا أن تكون المنفعة موجبة بعقد القرض مشروطة فيه تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 175) روي عن ابن عباس ذلك ألا ترى أنه لو قضاه أحسن مما عليه لا يكره إذا لم يكن مشروطا اهـ كمال. واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب