021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے نقد بیع میں ادھار کے حساب سے قیمت لینا
62132خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سوال:ہمارا کھاد کا کاروبار ہے ،نقد اور ادھار کے ریٹ مختلف ہوتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا ادھار ہوتا ہے ۔ ایک آدمی نے کہا کہ مجھے کھاد دے دو میں دو چاردن میں قیمت ادا کر دوں گا۔چنانچہ ہم نے اس کھاد نقد کے حساب دے دی لیکن اس شخص نے ادائیگی میں اتنی تاخیر کی کہ ٦ ماہ گزر گئے۔کیا ہم اس سے ادھار کے ریٹ کے حساب سے پیسے لے سکتے ہیں؟ اور اگر وہ نہ دے تو لینے کاکیا طریقہ اختیار کریں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ شروع میں معاملہ نقد قیمت پر طے ہوا لیکن خریدار نے فوراً ادائیگی نہیں کی لہذا خریدارکے ذمےطے شدہ قیمت کے بقدر آپ کا دین(معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہو) قائم ہو گیا لہذا آپ صرف وہی دین وصول کرنے کے حقدار ہیں۔ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے عقد تبدیل نہیں کر سکتے۔اگر اس شخص کی کوئی مجبوری ہے تو آپکو چاہیے کہ احساناً اسے مہلت دے دیں اور اسکے حالات بہتر ہونے کا انتظار کریں ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے دین کے بدلے اس سے کوئی چیز بھی خریدی جا سکتی ہے اور اگر ادائیگی میں تاخیر بغیر کسی مجبوری کے کررہا ہے تو یہ ظلم ہے اس پر لازم ہے فوراً ادائیگی کرے ۔ اگر ادائیگی نہ کرے تو آپکو حق ہے کہ آپ اس کے خلاف قانونی کاروائی کریں یا پنچائت کے ذریعے اپنا حق وصول کریں اگر کوشش کے باوجودایسا کرناممکن نہ ہو تو بغیر کسی فتنہ انگیزی کےاگراس کی کوئی چیز ضبط کر کے بیچ کر اپنا حق وصول کر لیا جائے تو اس کی گنجائش ہے ،لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرنا ہرگزجائز نہیں اور کوشش کی جائے کہ کوئی ایسی چیز لی جائے جو اس کے لیے کم سے کم اہمیت رکھتی ہواور اس چیز کی قیمت دین کے قریب قریب ہو۔
حوالہ جات
البحر الرائق (12/ 212) ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين، ويجوز من المديون لعدم الحاجة إلى التسليم، (رد المحتار) (4/ 95) وقد صرح في شرح تلخيص الجامع في باب اليمين في المساومة بأن له الأخذ وكذا في حظر المجتبى، ولعله محمول على ما إذا لم يمكنه الرفع للحاكم، فإذا ظفر بمال مديونه له الأخذ ديانة بل له الأخذ من خلاف الجنس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة (قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق۔ (رد المحتار) (4/ 95) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب