021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد پرمیراث کادعوی کرنا
62386وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

صورت مسئلہ یہ ہے کہ 2007ء میں پٹھان کالونی کے ایک قبرستان سے متصل کوڑا کرکٹ والی زمین پر فتوی کی روشنی میں سرکاری اجازت نامے سے اہل محلہ نے مسجد کی تعمیر شروع کی اور میاں جہانزیب کو مسجد کمیٹی کا صدر بنایا گیا،2013ء میں مسجد کمیٹی کے صدر کا انتقال ہو گیا۔کمیٹی مسجد اور اہل محلہ نے کمیٹی کے جنرل سیکٹری امیر حاتم خان کے والد تاج محمد خان کو مسجد کمیٹی کا صدر نامزد کیا چنانچہ نئے صدر نے سابق صدر کے بیٹے جہانگیر سے مسجد کے کاغذات کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اسٹامپ پیپر پر حلفاً بیان تحریر کر کے دیا کہ کاغذات میرے پاس نہیں ہے،گم ہو گئے ہیں۔اس پر صدر کمیٹی نے متعلقہ تھانے میں کاغذات کی گمشدگی کی FIRکرائی اور اپنی صدارت میں محنت و کوشش سے مسجد کی تعمیر شروع کرادی اور تقریباً سات سال کے عرصے میں مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے۔ اب سابق صدر کمیٹی کے بیٹے جہانگیر کا کہنا یہ ہے کہ میں مسجد میں مزید کام ہونے نہیں دونگا کیونکہ یہ مسجد میرے والد کی ملکیت ہے اور میں اس کا وارث ہوں۔قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے کہ جہانگیر کا مسجد کی ملکیت ووراثت کا دعوی کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کوئی زمین جب ایک بار مسجد کے نام پر وقف کر دی جائے وہ انسان کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، وہ زمین ہمیشہ مسجد رہے گی ۔کوئی آدمی نہ اسے واپس لے سکتا ہے نہ اس کو بیچ سکتا ہے اور نہ اس زمین میں میراث جاری ہو تی ہے۔اس لیے جہانگیر کا یہ دعوی کہ یہ مسجد میرے والد کی ملکیت ہے اور میں اس کا وارث ہو، ناجائز اور غلط ہے۔خصوصاً کہ جب مذکورہ زمین اصلاً اس کے والد کی ملکیت بھی نہیں تھی،بلکہ سرکاری زمین تھی۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 21) ل: "ومن اتخذ أرضه مسجدا لم يكن له أن يرجع فيه ولا يبيعه ولا يورث عنه" لأنه تجرد عن حق العباد وصار خالصا لله، وهذا لأن الأشياء كلها لله تعالى، وإذا أسقط العبد ما ثبت له من الحق رجع إلى أصله فانقطع تصرفه عنه كما في الإعتاق. الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 20) "وإذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن للناس بالصلاة فيه، فإذا صلى فيه واحد زال عند أبي حنيفة عن ملكه" أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به، وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد، ويشترط تسليم نوعه، وذلك في المسجد بالصلاة فيه، أو لأنه لما تعذر القبض فقام تحقق المقصود مقامه ثم يكتفى بصلاة الواحد فيه في رواية عن أبي حنيفة، وكذا عن محمد؛ لأن فعل الجنس متعذر فيشترط أدناه. اللباب في شرح الكتاب (2/ 186) (وإذا بنى مسجداً لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه) الواقف: أي يميزه (عن ملكه بطريقه) ، لأنه لا يخلص لله تعالى إلا به (ويأذن للناس بالصلاة فيه) ، لأنه من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد، وتسليم كل شيء بحبسه، وذلك في المسجد بالصلاة فيه، لتعذر القبض فيه، فقام تحقق المقصود مقامه (فإذا صلى فيه واحد زال ملكه عند أبي حنيفة ومحمد) في رواية، وفي الأخرى - وهي الأشهر - يشترط الصلاة بالجماعة، لأن المسجد يبنى لذلك، وقال الإمام قاضيخان: وعن أبي حنيفة فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة بالجماعة اثنان فصاعدا كما قال محمد، وفي رواية عنه إذا صلى واحد فإذنه يصير مسجداً!
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب