03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کی تقسیم
62984ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

: محترم مفتی صاحب کچھ عرصہ پہلے ہمارے والد بیمار ہوئے تھے اسکے بعد انہوں نے ٹھیک ہونے کے بعد وراثت تقسیم کرنے کا ہم سب سے کہا ،ہم سب رضا مند ہوگئے ،پھر انہوں نے مجھے اور میری بہن کو حصہ کے علاوہ بھی مزید رقم دی ،کہ ان کی بیماری میں ہم نے انکا بہت خیال کیا اور ساتھ ساتھ رہے ،اب اس صورت حال کے بعد سوال یہ ہیکہ؟ • والد صاحب کا ایسا کرنا درست ہے کہ نہیں ؟اگر نہیں تو اب کیا کریں؟ • ہمارے دوسرے بھائی بہن ہمیں لالچی کہتے ہیں اور کہتے ہیں پیسوں کے چکر میں تم ابو کے پیچھے آگے ہوتے رہے لالچی وغیرہ وغیرہ تو کیا انکا یہ کہنا جائز ہے؟؟ • اگر والد صاحب اب برابری کرنا چاہیں تو مزید رقم حساب کرکے دے سکتے ہیں؟اور دیتے ہوئے روپے یا چیز کی قدر میں کمی یا زیادتی کا لحاظ کرنا کہ (دو سال پہلے 100 روپے کی موجودہ مالیت)درست ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں اپنی تمام جائیداد اور دیگر املاک کا تنہا مالک ہے، اس میں بچوں اور دیگر وارثوں کا کوئی حق نہیں، اور نہ ہی کوئی اولاد اُس شخص سے اْس کی زندگی میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہے، کیونکہ میراث کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعد سے ہے، زندگی میں دیا جانے والا مال تحفہ اور گفٹ ہوتا ہے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی جائداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی بقیہ زندگی کیلئے جو کچھ مال رکھنا چاہے رکھ لے، تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، پھر بیوی اگر حیات ہو تو بقیہ مال میں سےکم از کم آٹھواں(1⁄8) حصہ بیوی کو دیدے، اس کے بعد جو کچھ بچے اس میں افضل و بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر دیا جائے، یعنی بیٹا بیٹی میں فرق نہ کیا جائے، اور اگر میراث کے طریقہ کے مطابق لڑکی کو لڑکے کے حصے سے آدھا دیا جائےتو یہ بھی شرعا درست ہے، نیز یاد رہے کہ کسی اولاد کو اس کی ضرورت یا خدمت یا معذوری کی وجہ سے دوسروں کی نسبت کچھ زیادہ دینا بھی درست ہے، بشرطیکہ دوسری اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ اور چونکہ اس طرح زندگی میں میراث کی تقسیم شرعا ً ھبہ(یعنی گفٹ) ہے، لہٰذا اس کے درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ جس کو جو کچھ دیا جائے باقاعدہ تقسیم کرکے عملی طور پر اس کو قابض بناکر دیا جائے، قابلِ تقسیم چیز کو مشترکہ طور پر دینا یا باقاعدہ قبضہ کرائے بغیر صرف کاغذات میں نام کردینا کافی نہیں، اس سے ہبہ درست نہیں ہوگا۔ اس تفصیل کے بعد سوالوں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں: (1)صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب نے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق عمل کیا ہے، اور بعض اولاد کو ضرورت /خدمت کی بنیاد پر ان کو کچھ زیادہ دیا ہے توان کا عمل درست ہے ۔ (2)اگر والد صاحب کے مذکورہ عمل میں آپ بہن بھائیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور آپ نےانہیں کسی کو کم دینے پر مجبور نہیں کیا ہے تو آپ لوگوں کو لالچی کہنا درست نہیں۔ (3) اگر والد صاحب نے پہلےکسی اولاد کو دوسری اولاد کی نسبت کم دیا ہو، تو اب اس کو بھی دوسروں کے برابر دینے سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے، اور اگر وقت گذرنے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی واقع ہوگئی ہو تو اس کا بھی لحاظ کرکے اسے کچھ مزید رقم بھی دیدینا مناسب ہے۔
حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام - (3 / 210) كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير . انظر المادة ( 1197 ) . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له : أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف كما ذكر في المواد ( 1317 و 1318 و 131 و 1320 ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (4 / 444( ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. الفتاوى الهندية - (4 / 391) ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان(3/154)وهو المختار، كذا في الظهيرية…
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب