کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ مروجہ کمیٹی ڈالنے کا حکم کیا ہے؟ اگر جائز ہے تو شرکاء میں سے کوئی شخص کمیٹی وصول کرنے کے بعد انتقال کرجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کمیٹی ڈالنا دراصل باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کی امداد کے لئے قرض کا لین دین ہے، جو مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی کے ساتھ جائز ہے ۔
1. کمیٹی کی جمع شدہ رقم سب شرکاء کی مرضی سے کسی ایک کو بطور قرض دے دی جائے یا بذریعہ قرعہ اندازی کے دی جائے مگر قرعہ اندازی کے نتائج کو لازم نہ قرار دیا جائے بلکہ سب شرکاء کی رضا سے صرف تسہیل انتخاب کا ایک ذریعہ سمجھا جائے۔
2. ہر شریک کو ہر وقت الگ ہونے کا اختیار رہے۔ اور علیحدگی کے وقت اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو اور شرکاء کو اس پر اعتراض نہ ہو۔
3. ایک ماہ کی مدت(کسی بھی متعینہ مدت) کو لازم نہ قرار دیا جائے ۔ہر شریک کو ہر وقت بطور قرض دی ہوئی اپنی رقم کی واپسی کے مطالبہ کا حق ہو۔
ان شرائط کی پابندی کرتے ہوئے کمیٹی ڈالنا شرعاً جائز ہے۔ (احسن الفتاوی8/210)
اگر شرکاء میں سے کوئی شخص کمیٹی وصول کرنے کے بعد انتقال کرجائے تو اس کی جتنی اقساط باقی ہیں ان کے بقدر رقم اس کے ترکے کو تقسیم کرنے سے پہلےکمیٹی کو ادا کرنا لازم ہوگا۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي - (30 / 241(
وإذا كان لرجل على رجل مال من ثمن بيع قد حل فأخره عنه إلى أجل فهو جائز وليس له أن يرجع عنه عندنا وقال بن أبي ليلى له أن يرجع في الأجل إلا أن يكون ذلك على وجه الصلح بينهما وذهب في ذلك إلى أن التأجيل معتاد جرى فيما بينهما أن لا يطالبه بالمال إلا بعد مضي المدة والمواعيد لا يتعلق بها اللزوم إلا أن يكون شرطا في عقد لازم ولهذا لا يثبت الأجل في القرض والعارية لأنه ليس بمشروط في عقد لازم فكذلك لا يثبت في الثمن وغيره من الديون إلا أن يكون شرطا في عقد لازم وكذلك الصلح أو أصل البيع إذا ذكر فيه الأجل ولكنا نقول لو باعه بثمن مؤجل في الابتداء يثبت الأجل فكذلك إذا أجله في الثمن في الانتهاء لأن هذا التأجيل يلتحق بأصل العقد بمنزلة الزيادة في الثمن والمثمن بأصل العقد ويصير كالمذكور فيه والدليل عليه أن الأجل بمنزلة الخيار لأنه يؤثر في تغير حكم العقد فإن توجه المطالبة في الحال من حكم العقد ويتغير بالأجل وثبوت الملك في الحال من حكم العقد۔
تبيين الحقائق - (5 / 184(
وإن ذكر البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على الوجه المعتاد جاز البيع ويلزمه الوفاء بالميعاد لأن المواعيد قد تكون لازمة قال عليه الصلاة والسلام { العدة دين } فيجعل هذا الميعاد لازما لحاجة الناس إليه۔
الموسوعة الفقهية:(33/137(
القرعة مشروعة باتفاق الفقهاء، وقد تكون مباحة أو مندوبة أو واجبة أو مكروهة أو محرمة في أحوال سيأتي بيانها۔
ودليل مشروعيتها الكتاب والسنة۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم