021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چھوٹی بستی میں جمعہ موقوف کرنے کا حکم
68688نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ایک  گاؤں میں فقہ حنفی کے مطابق  جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں، لیکن  دو سالوں سے وہاں  جمعہ جاری ہے،  کیا جمعہ ختم کرنا جائز ہے؟ اگر ہے تو  ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کیونکہ بعض لوگ مخالفت کرتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے چونکہ شہر کا ہونا شرط ہے اور گاؤں میں اس کی ادائیگی جائز نہیں،اس لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے بجائے  نماز ظہر پڑھی جائے ، ایسے گاؤں میں نماز جمعہ کی ادائیگی جائز نہیں ۔جو لوگ نماز ظہر  کے بجائے نماز  جمعہ ادا کرتے ہیں ان پر نماز  ظہر کی قضا ضروری ہے ۔ 

مذکورہ گاؤں میں اگر کچھ لوگ اس کے باوجود جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں تو انہیں زبردستی منع کرنا درست نہیں،کیونکہ اس سے فتنہ و انتشار کا خدشہ ہوتا ہے ،البتہ گاؤں کے علماء کو چاہیے کہ حکمت و بصیرت کے ساتھ وقتاً فوقتاًعوام کو اس حوالے سےشرعی مسئلہ سے آگاہ کرتے رہیں یہاں تک کہ وہ لوگ اصل حکم شرعی کی پیروی شروع کردیں ۔ 

حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله: أما المصر الجامع: فشرط وجوب الجمعة، وشرط صحة أدائها عند أصحابنا ، حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر، ومن كان ساكنا في توابعه، وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه، فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر، ولا يصح أداء الجمعة فيها. ( بدائع الصنائع :1/ 259) وقال أيضا: ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي رضي الله تعالى عنه «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة رضي الله تعالى عنهم فتحوا البلاد، وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار، فكان ذلك إجماعا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة ، فلا يترك إلا بنص قاطع ،والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار؛ ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر، فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر. (بدائع الصنائع :1/ 259) قال ابن نجيم رحمه الله: قوله شرط أدائها المصر) أي شرط صحتها أن تؤدى في مصر حتى لا تصح في قرية، ولا مفازة؛ لقول علي رضي الله عنه :لا جمعة، ولا تشريق، ولا صلاة فطر، ولا أضحى إلا في مصر جامع أو في مدينة عظيمة رواه ابن أبي شيبة وصححه ابن حزم وكفى بقوله قدوة وإماما. (البحر الرائق:2/ 151)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب