03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے کاروباری قرض کا حکم
69924میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہم پانچ بھائی ہیں،ہربھائی کا کاروبار ،معاملات،گھر الگ الگ ہیں۔ہمارے ایک بھائی کی وفات ان دنوں ہوئی ہے۔ان کی وفات کے بعد ہم بھائیوں کو معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگوں کی انوسمنٹ ان کے کاروبار میں تھی جس سے ہم  بھائی لاعلم تھے۔اب جن لوگوں کی انوسمنٹ بھائی کے کاروبار میں تھی وہ رقم واپسی کا تقاضا کر رہے ہیں،جس کاروبار میں ان لوگوں کی شراکت داری تھی وہ کاروبار اتنی رقم کی مالیت نہیں رکھتاکہ قرض کی واپسی ہو۔

مرحوم بھائی کے نام پر جو پراپرٹی ہے وہ بھی ناکافی ہے ،رقم اتنی بڑی ہے کہ ہم بھائی بھی اس کی ذمہ داری نہیں لے پارہے۔

مہربانی فرما کرمندرجہ ذیل سوالوں کے بارے میں ہماری راہنمائی فرمادیں۔

1۔بھائی جو اس صورتحال سے ناواقف تھے،نہ گواہ تھے اور نہ ہی گارنٹی دینے والے،وہ شرعی لحاظ سے کس حد تک ذمہ دارہیں؟

2۔جن لوگوں نے اسٹامپ پیپر،لیٹر پیڈ لکھتے وقت نفع نقصان کی برابری کا ذکر کیا ہے ،بھائی کی وفات کے بعد ان کی رقوم کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

3۔مرحوم بھائی کے پسماندگان میں جو اولاد ہے وہ نابالغ ہے، اگر بھائی کی جائیداد کی فروخت ہوتی ہے تو ان میں ان کے بچوں کے لیے کوئی حصہ چھوڑا جائے گایا ساری جائیداد قرض  کی ادائیگی میں بیچ دینی چاہیے۔

4۔وہ قرض جو کاروبار کی مد میں لیا گیا ہے، کاروبار میں نقصان کے بعد یا کاروبار کو چلانے والے کی فوتگی کے بعد اس قرض کی حیثیت کیا ہوگی؟اور اس کی واپسی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب آپ تمام حضرات لاعلم ہیں تو قرض دینے والے اپنے قرض کے ثبوت پر شرعی شہادت پیش کریں گے۔جب وہ ثابت ہوجائے تو پھر اس کے احکام یہ ہوں گے۔

میت کے ترکے میں سے سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا،اس کی میراث میں جو کچھ بھی ہو اس کی قیمت لگا کر قرض داروں کو ادائیگی ہوگی۔

اگر قرض زیادہ ہوکہ میراث سے اس کی ادائیگی نہ ہوسکتی ہو تو پھر ورثہ کے ذمے اس کی ادائیگی لازم نہیں۔اگر وہ میت کی خیرخواہی چاہتے ہوئے ادائیگی کردیں تو ثواب ہوگا۔

1۔دین کی ادائیگی میراث سے ہوگی،بھائیوں کے ذمے اپنی ذاتی رقم سے اس دین کی ادائیگی لازم نہیں۔

2۔یہ رقم قرض کے طور پر دی ہے یا کاروبار کے لیے؟ اگر قرض کے لیے دی تھی تو نفع ونقصان کی بات ہی غلط ہے،جس قدر رقم دی ہے اسی کے حقدار ہوں گے۔

اگر کاروبار کے لیے ہو اور اس میں آپ کے بھائی کی کوئی رقم شامل نہ ہو، بلکہ انہوں نے صرف کاروبار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہو تو بھی اس میں نقصان کی صورت میں برابری والی شرط غلط ہے،اس لیے کہ یہ شریعت کی اصطلاح میں مضاربت ہے،اور اس میں نقصان فقط رقم دینے والا برداشت کرتا ہے۔ اور نفع دونوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

اگر آپ کے بھائی کی رقم بھی اس میں شامل تھی تو یہ مشترک کاروبار ہوا،اس میں نقصان ہر ایک کے سرمایہ کے حساب سے ہوگا،یعنی جس کا جتنا سرمایہ ہوگا اسی کے تناسب سے نقصان برداشت کرےگا، جبکہ نفع ہر ایک کےلیے شروع میں مقرر کردہ (حقیقی نفع کے فیصدی)حساب سے طے ہوگا،یعنی کاروبار شروع کرتے وقت جس کے ساتھ جو طے ہوا تھا اسی کے مطابق نفع ہوگا۔

یہ تفصیل اس صورت میں ہے کہ  یہ عقد شریعت کی طے کردہ شرائط کے مطابق ہو(جس کی تفصیلات اسٹامپ پیپر پر موجود کاروباری شرائط کو دیکھ کر معلوم ہوسکتی ہیں)

اگر اس عقد میں کوئی ایسی شرط موجود ہوجو شرعی شرائط کے خلاف ہے تو پھر یہ معاملہ شروع ہی سے منعقد نہیں ہوا،لہذا مضاربت کی صورت میں نفع ونقصان دونوں سرمایہ دینے والا کا ہوگا،جبکہ کام کرنے والے کو مارکیٹ میں رائج اس کام کی مزدوری دی جائے گی۔

اور شرکت کی صورت میں ہر ایک شریک اپنے سرمایے کے بقدر نفع ونقصان کا مستحق ہوگا۔ تمام نقصان کسی ایک کے ذمہ نہیں ڈالاجاسکتا۔

اس تمام تر تفصیل کی روشنی میں یہ دیکھ لیا جائے کہ لوگوں اور آپ کے بھائی کے درمیان اسٹامپ پیپر پر کس طرح کا معاہدہ ہوا تھا،اس میں کیا شرائط تھیں؟ اسی کے مطابق آپ کے بھائی کی  میراث سے رقم کی ادائیگی ہوگی۔

 یہ بات واضح رہے کہ شرکت یا مضاربت کے کاروبار میں جب تک بھائی مرحوم کی لاپرواہی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے تنہا نقصان کا ذمہ دار بنانا درست نہیں ہوگا۔

3۔مرحوم کی ملکیت میں جو کچھ آتا ہے،وہ بیچ کر قرض کی ادائیگی کی جائے گی،جو چیز بچوں ،اہلیہ یا دیگر ورثہ کی ملکیت میں ہو وہ نہیں بیچی جائے گی۔

4۔ اس کا جواب اوپر ہوچکا ہے۔

حوالہ جات

وفی الدر المختاروحاشیة ابن عابدین(6/760):

ثم تقدم دیونہ التی لھا مطالب من جھة العباد۔

وفی الشامیة:

ھوماکان ثابتا با لبینة مطلقا اوبإقرار،ثم تقدم وصیتہ من ثلث مابقی،ثم قسم البقی بعد ذلک بین ورثتہ۔

وایضا: والمراد بالدین لہ مطالب من جھة العباد۔۔۔فلایلزم الرثة ادائھاإلاإذااوصی بھااو تبرعوابھامن عندھم

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

17/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب