70294 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
حجام یا اسی طرح دیگر حرام کمائی والے کو مکان یا دکان اجارہ پردینا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ حجام ڈاڑھی بھی کاٹتاہو۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگردکان کے مالک کا غالب گمان یہ ہوکہ کرایہ پردکان لینے والے کا غالب کام جائزہوگا تو اسے دکان کرایہ پر دینا جائز ہےاوراس سے حاصل ہونے والا کرایہ حلال ہوگا، اوراگرغالب گمان یہ ہو کہ اس کا غالب کام ناجائز ہوگا تو پھراسے دکان کرایہ پر دیناجائزنہیں،اس صورت میں دکان کرایہ پر دینےسے مالک بھی گناہگارہوگا،کیونکہ ایک ناجائز کام میں اس نے تعاون کیا۔تاہم اگر کسی نے غلطی سے دی ہوتوتوبہ کرے اورحاصل ہونے والے کرایہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگرحرام کمائی والے دکاندارنےکہیں سےحلال مال قرض لیکر کرایہ ادا کیاہویا اس کی اپنی ذاتی حلال آمدن میں اتنی گنجائش ہو کہ جس سے وہ کرایہ ادا کرسکے تو کرایہ حلال ہوگا ،ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 482)
إذا استأجر الذمي بيتاً من مسلم ليبيع فيه الخمر، جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 482)
قال: وإذا استأجر الذمي من المسلم بيعة يصلَي فيها فإن ذلك لا يجوز؛ لأنه استأجرها ليصلي فيها وصلاة الذميّ معصية عندنا وطاعة في زعمه، وأي ذلك ما اعتبرنا كانت الإجارة باطلة؛ لأن الإجارة على ما هو طاعة ومعصية لا يجوز.
ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب ، وكذا أكل طعامهم ، كذا في الاختيار شرح المختار .
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [المائدة: 2]
وفی أحكام القرآن للجصاص ؎ (3/ 296)
وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
24/2/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |