70271 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ہی کالج یا یونیورسٹی میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت میں نامحرم مردوں اور عورتوں کابلاضرورت اختلاط اورمیل جول ناجائز ہے جس سے بچنا لازم ہے۔ اس لئے حکومتِ وقت اور اسلامی معاشرے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکوں کے لیے الگ اور لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے قائم کریں۔ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ تعلیم کا نظم موجود ہو، وہاں مخلوط تعلیمی اداروں میں جانا درست نہیں۔ اگر کہیں پر الگ الگ تعلیمی ادارے قائم نہ ہوں اور لڑکے لڑکیاں ایک ہی تعلیمی ادارے میں جاتے ہوں تو پھر ادارے والوں پر لازم ہے کہ ان کی کلاسز، اور دیگر ضروریات کی جگہیں الگ الگ رکھیں، لڑکوں کو مرد حضرات اورلڑکیوں کو خواتین پڑھائیں، اور ان کا ایک دوسرے کی درس گاہوں میں آنا جانا بھی نہ ہو۔
طلبا و طالبات، ان کے والدین اور سرپرستوں کی بھی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت اور متعلقہ تعلیمی اداروں سے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ ادارے قائم کرنے کا مطالبہ کریں اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مقدور بھر کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن جب تک ایسا نظم میسر نہ ہو اور ضروری تعلیم حاصل کرنے کے لیے مجبورا ایسی جگہ جانا پڑے جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی کلاس میں سبق پڑھایا جاتا ہو تو مجبوری کے درجے میں مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھتے ہوئے اس کی گنجائش ہے:-
- لڑکیاں پردے کامکمل اہتمام کریں ، اور کلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی نشستیں الگ الگ ہوں۔ لڑکے لڑکوں کے ساتھ بیٹھیں اور لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ۔ درمیان میں پردہ، بورڈ وغیرہ کوئی حائل لگانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اس کا اہتمام بھی کیا جائے۔
- لڑکے اور لڑکیاں حتی الامکان اختلاط اور بلا ضرورت گفتگو سے پرہیز کریں۔
- جہاں مجبوری کی وجہ سے اختلاط ہو، وہاں مرد و خواتین دونوں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
- اگر مرد استاذ کسی ایسی کلاس میں سبق پڑھائے جس میں لڑکیاں بھی ہوں تو اولاً کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لڑکیوں کی جانب پردہ ہو، اگر ایسا انتظام کرنا اختیار میں نہ ہو تو پھر وہ حتی الامکان اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اسی طرح اگر کوئی خاتون استانی ایسی کلاس میں سبق پڑھائے جہاں لڑکے بھی ہوں تو وہ مکمل پردے کا اہتمام کرے اور اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے، طلبا بھی اپنے دل اور نگاہوں کی حفاظت کریں۔ استاذ اور طالبات اور استانی و طلبا کی ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو سبق سے متعلق سوال جواب کی حد تک ہو، اس کے علاوہ بلاضرورت گفتگو سے پرہیز کریں۔
- جب تک مخلوط تعلیمی اداروں میں جانے والے طلبا و طالبات کو الگ الگ تعلیمی ادارے میسر نہیں آتے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اس نظام کو دل سے برا سمجھتے ہوئے اس کی تبدیلی اور متبادل نظام لانے کے لیے ہر سطح پر اپنی ممکنہ کوششیں بھی جاری رکھنی چاہئیں۔
حوالہ جات
القرآن الکریم، [النور: 30، 31]:
{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (31) } .
القرآن الکریم، [الأحزاب: 53]:
{وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ}الآیة.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
27/صفر المظفر/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |