021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ
70299زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

میں نے طالب علمی کے دور میں 2013 میں ایک کرنٹ بینک اکاؤنٹ سیونگ کی نیت سے کھلوایا تھا، اور ابھی تک اس میں سیونگ کی نیت سے پیسے ٹرانسفر کرتا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں سے کبھی کبھی ضرورت کے مطابق کچھ روپے نکالنے کا معمول بنا ہے، لیکن وہ بھی دوبارہ واپس جمع کروادیتا ہوں۔ اس اکاؤنٹ سے نہ تو بینک کوئی زکوۃ کاٹتا ہے اور نہ ہی میں نے 2019 تک کوئی زکوۃ ادا کی ہے۔ 2020 میں اکاؤنٹ میں موجود کل بیلنس پر 2.5% زکوۃ میں نے دے دی ہے۔

 کیا پچھلے 2013 سے 2019 تک سالوں کی زکوۃ مجھ پر فرض ہے؟ اگر ہے تو میں اس کی زکوۃ کیسے ادا کرسکتا ہوں؟ ہر سال کے ہر مہینے اکاؤنٹ میں بیلنس مختلف رہا اور زکوۃ تو سال کی رقم پر فرض ہے۔ راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زکوۃ صاحبِ نصاب شخص پر واجب ہوتی ہے۔ صاحبِ نصاب اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر رقم یا سامانِ تجارت ہو، یا اتنا سونا، چاندی، نقدی اور سامانِ تجارت ہو جن سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچے۔ زکوۃ میں قمری تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے چاند کی جس تاریخ کو کوئی شخص نصاب کا مالک بن جائے، اس سے اس کی زکوۃ کا سال شروع ہوجائے گا، اگلے سال چاند کی اُس تاریخ کو بھی اگر وہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق صاحبِ نصاب ہوگا تو اس پر اس دن موجود اموال کی زکوۃ واجب ہوگی۔ سال کے درمیان مال کم و بیش ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، الا یہ کہ مکمل مال ہلاک ہوجائے تو پھر دوبارہ صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ سے زکوۃ کا سال شروع ہوگا۔ اگر کسی کو نصاب کا مالک بننے کی متعین تاریخ یاد نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جس وقت سے آپ صاحبِ نصاب بنے ہیں، اس وقت سے آپ پر اپنے دیگر قابلِ زکوۃ اموال کی طرح بینک میں رکھی ہوئی رقم کی زکوۃ واجب ہوگئی تھی۔ جب آپ نے زکوۃ ادا نہیں کی تو اب ان تمام سالوں کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔ گزشتہ سالوں کی زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبِ نصاب بننے کے پہلے سال زکوۃ کی تاریخ کو آپ کے اکاؤنٹ میں جتنی رقم تھی اس کا ڈھائی فیصد اس سال کے زکوۃ کے طور پر دینا ہوگا، دوسرے سال کی زکوٰۃکے لیے گزشتہ سال کی زکوۃکی (ڈھائی فیصد) رقم منہا کرکےباقی ماندہ رقم کا ڈھائی فیصد اداکریں ،پھراسی طرح  ہرسال کی زکوۃکی (ڈھائی فیصد) رقم منہاکرکے باقی ماندہ  رقم کا ڈھائی ڈھائی فیصد ادا کرکےبقیہ تمام سالوں کی زکوٰۃاداکریں۔ البتہ اگر درمیان میں کسی سال آپ صاحبِ نصاب نہ رہے ہوں یا گزشتہ سالوں کی زکوۃ نکالتے ہوئے کسی سال آپ کا مجموعی قابلِ زکوۃ مال نصاب سے کم رہ جائے تو اس سال (مالکِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے) زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔   

اگر ہر سال زکوۃ کی تاریخ آنے پر بینک میں موجود رقم آپ کو متعین طور پر معلوم نہ ہو تو جتنی رقم ہونے کا غالب گمان ہو، اس کے مطابق زکوۃ ادا کریں۔  

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (3/ 33):

قال: رجل له ألف درهم حال عليها خمسة أحوال ثم ضاع نصفها فعليه نصف ما وجب عليه في هذه الخمس سنين، وهذا ظاهر؛ لأن هلاك النصف معتبر بهلاك الكل، وإنما الكلام في بيان ما يلزمه فيها في هذه الأحوال، فعلى قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى يلزمه في الحول الأول خمسة وعشرون درهما وفي الحول الثاني أربعة وعشرون درهما؛ لأن مقدار خمسة وعشرين درهما صار دينا عليه، ودين الزكاة يمنع وجوب الزكاة عنده، وهو لا يرى الزكاة في الكسور، وإنما يلزمه في السنة الثانية زكاة تسعمائة وستين درهما، وهكذا في كل سنة لا يعتبر في ماله ما وجب عليه من الزكاة للسنين الماضية والكسور في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى. وعلى قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى لا يعتبر من ماله ما وجب عليه من الزكاة للسنين الماضية، وتعتبر الكسور؛ لأنهما يوجبان الزكاة في الكسور، ولا يعتبران بعد النصاب الأول نصابا.

رد المحتار (2/ 305):

ذكر في المنتقى: رجل له ثلاثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين اه.

 

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73):

وغالب الظن عندهم ملحق باليقين ، وهو الذي يبتنى عليه الأحكام يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب ، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق ، وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع ، وإذا غلب على ظنه وقع.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب