021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے انتقال کے بعد فوت ہونے والے بیٹے کا حصہ کسے ملے گا؟
70302میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص محمد علی کا انتقال ہوا۔ اس کے ورثا میں ایک بیوہ، ایک بیٹی اور سات بیٹے ہیں۔ محمد علی کے والدین، دادا، دادی اور نانی سب کا محمد علی کی زندگی ہی میں انتقال ہوچکا تھا۔ پھر محمد علی کے سات بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا والد کے انتقال کے بعد انتقال ہوا، اس کے ورثا میں والدہ، ایک بیوہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی ہوگئی ہے، اس کے والد، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ محمد علی کے جس بیٹے کا انتقال ہوا ہے، کیا اس کی بیوہ، بیٹے اور بیٹیوں کا میراث میں حصہ ہے؟ اگر ہاں تو کتنا کتنا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جی ہاں! محمد علی کے جس بیٹے کا ان کے بعد انتقال ہوا ہے، اس کا حصہ اس کے ورثا (والدہ، بیوہ، بیٹے اور بیٹیوں) کو ملے گا، جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے۔:-

محمد علی نے اپنے انتقال کے وقت سونا، چاندی، نقد رقم، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا بڑا ساز و سامان چھوڑا ہو، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے، اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کیے ہوں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا، اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا، اگر مرحوم نے بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو وہ بھی قرض ہے جو ترکہ کی تقسیم سے قبل بیوہ کو دیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، اس کو کل ایک سو بیس (120) حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو پندرہ (15) حصے، بیٹی کو سات (7) حصے، اور مرحوم بیٹے سمیت سات بیٹوں میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے دیدیں۔

اس کے بعد مرحوم بیٹے کے حصے میں جو چودہ (14) حصے آئیں، اس میں سے سب سے پہلے مذکورہ

بالا تین حقوق (تجہیز وتکفین، قرض جس میں بیوہ کا غیر ادا شدہ مہر بھی داخل ہے، اور جائز وصیت اگر اس نے کی ہو) اسی ترتیب اور تفصیل کے ساتھ ادا کریں، اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کو کل چھیانوے (96) حصوں میں تقسیم کرکے والدہ کو سولہ (16) حصے، بیوہ کو بارہ (12) حصے، بیٹے کو چونتیس (34) حصے اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سترہ، سترہ (17، 17) حصے دیدیں۔ ایک بیٹی کی شادی ہونے کی وجہ سے اس کا حصہ ختم نہیں ہوا، اسے اپنا حصہ دینا لازم ہے۔

حوالہ جات

القرآن الکریم:

{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }[النساء: 11]

 {وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12]

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب