021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع کا معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد اضافی رقم کا مطالبہ کرنا
70319جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کچھ دن پہلے آپ سے ایک معاملے کے متعلق دریافت کیا تھا،اس پر آپ کا تسلی بخش جواب آیا،اس جواب کی کاپی ساتھ لف ہے،اب اسی معاملے کے حوالے سے کچھ مزید دریافت کرنا ہے اور وہ یہ کہ

خالد حمید سے اس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ محمد اسماعیل کو تین لاکھ کے بجائے تین لاکھ چالیس ہزار روپے ادا کردے اور معاملے کو ختم کردے،اس حوالے معلوم یہ کرنا ہے کہ اضافی رقم کی ادائیگی سود میں تو نہیں آئے گی؟

اگر یہ سود کے زمرے میں آتی ہے،تو خالد حمید اگر فساد سے بچنے کے لیے مجبورا یہ اضافی رقم ادا کردے تو وہ گناہ گار ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جیسا کہ سابقہ سوال کے جواب میں یہ ذکر کیا جاچکا کہ خرید و فروخت کا معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد خالد حمید اس زمین کا مالک بن چکا ہے،لہذا اب اس زمین کے عوض مزید رقم کے مطالبے کا حق کسی کو حاصل نہیں،نہ محمد اسحاق اور نہ اس کے چھوٹے بھائی محمد اسماعیل کو۔

تاہم اگر خالد حمید معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے محمد اسماعیل کے مطالبے پر اضافی چالیس ہزار روپے کی ادائیگی کرے گا تو یہ اس کی طرف سے تبرع ہوگا اور اس کا اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا،البتہ محمد اسماعیل کے لیے اس رقم کا لینا اور اسے استعمال میں لانا شرعا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (5/ 283):
"(قوله البيع يلزم بإيجاب وقبول) أي حكم البيع يلزم بهما؛ لأنه جعلهما غيره وأنه يلزم بهما مع أن البيع ليس إلا هما؛ لأنهما ركناه على ما حققناه وما قيل إنه معنى شرعي كما قدمناه فليس هو إلا الحكم فالمتحقق من الشرع ليس إلا ثبوت الحكم المعلوم من تبادل الملكين عند وجود الفعلين أعني الشطرين بوضعهما سببا له شرعا وليس هنا شيء ثالث".
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" (5/ 1974):
"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى
(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب